پرانا کوٹ، نئی کتاب


کتاب انسان کی بہترین رفیق ہے جس کی اہمیت اور صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ہوش اور شعور کی دنیا میں قدم رکھتے ہی انسان کو کتابوں سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ کتاب ہی ہے جو انسان کو زندگی کے نشیب و فراز، بودو باش، رہن سہن اورحکمت و دانائی کی باتیں بتاتی ہے۔

یہ ایسی حقیقت ہے جس سے مفر ممکن نہیں، کتب بینی کی عادت انسان کی شخصیت پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے۔ مطالعہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے، ایک وقت گزارنے کے لیے اور دوسرا ذہن و دل کی بالیدگی کے لیے۔ دنوں طرح کا مطالعہ مفید ہے، دونوں ہی سے انسان کی شخصیت میں نکھار آتا ہے اور انسان کے لیے شعور اور حکمت کے دروازے کھلتے ہیں بس ضرورت ہے تو مثبت سوچ اور اپروچ کی۔

مطالعہ اور اچھی کتاب کا مطالعہ انسان کو شعور کی وہ آنکھ عطا کرتا ہے جس سے وہ اپنے اندر اور باہر کی دنیا کو نا صرف بہتر انداز میں دیکھ سکتا ہے بلکہ سمجھ بھی لیتا ہے۔ ایک دانشور کو قول ہے کہ کتابیں پڑھنے اور اپنے اردگرد رکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ ہم ان بڑے بڑے دانشوروں اور لکھاریوں کی صحبت میں براہ راست بیٹھے ہیں کیونکہ کتاب ادیب اور دانشور کے تجربے کا نچوڑ ہوتی ہے جس میں وہ اپنے داخلی اور خارجی تجربات کو حالات اور وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے احاطہِ تحریر میں لاتے ہیں اور یوں وہ ایک عام قاری تک علم و دانش کی رقیق حقیقتیں سادہ الفاظ میں پہنچاتے ہوئے اس کی علم و دانش تک رسائی ممکن بنا تے ہیں۔

کتب کا ذکر ہو تو سب سے پہلے اس عظیم کتاب کے بارے میں بات کرتے ہیں جو علم و دانش میں اولین ہے یعنی قرآن مجید فرقان حمید۔ یہ اللہ کی کتاب ہے جوانسانی زندگی کے سبھی پہلوؤں کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ کسی قسم کی کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی اور اللہ کی کتاب پر غور کرو جیسا کہ قرآن مجید میں ایمان والوں کو دعوت دی گئی ہے اس کتاب سے راہِ ہدایت حاصل کریں۔ اس کتاب میں پہلے لفظ سے لے کر آخر تک، زیر سے زبر تک، پیش، شد، مد سب میں نفع ہی نفع ہے۔

کیا دنیا میں ایسی کوئی کتاب ہو گی؟ یقیناًنہیں، ممتاز مفتی کا کہنا تھا کہ میں قرآن مجید کو اپنے دائیں طرف رکھتا ہوں اور رات سونے سے پہلے مطالعہ کرتا ہوں۔ یہ بہت بڑی کتاب ہے جسے ہم نے طاق میں سجا کر رکھ دیا ہے فقط سلامتی کے لئے۔ اس کے بعد احادیث کی کتب اور اولیاء کرام کی کتابیں جو صرف و صرف انسانوں کے لئے لکھی گئیں تا کہ یہ ان سے رہنمائی حاصل کر کے ایک بہتر زندگی گزار سیکیں۔

کتب بینی ایک بڑ ی نعمت ہے اور اچھی کتاب کا مطالعہ تو انسانی آنکھ کے سامنے سے ایسے ایسے راز کھول دیتی ہے جو آ پ کو صدیوں کے سفرسے بھی حاصل نہیں ہو پاتی۔ کتاب انسان کی بہترین دوست ہے جسے پڑھنے سے نہ صرف انسان کی تنہائی دور ہوتی ہے بلکہ کتاب انسان کے شعور کو بھی بیدار کرتی ہے مگر شرط صرف و صرف شوق وذوق کی ہے مگر بد قسمتی سے گذشتہ کئی برسوں سے کتب بینی کے رجحان میں کمی دیکھی جا رہی ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں انٹرنیٹ اور موبائلز کا بڑھتا ہوا استعمال، ٹی وی اور کیبل دیکھنے میں اضافہ جبکہ کتاب بھی مہنگی ہو کر عام قاری کی پہنچ سے دور ہو گئی۔

جب سے ہم نے کتاب پڑھنی چھوڑ دی تو ادب و احترام جو ہمارے معاشرے کا قیمتی اثاثہ تھا وہ بدرجہ اتم غائب ہونا شروع ہو گیا۔ تعلیمی کتابوں سے ڈگریاں حاصل کر کے ہم بڑ ے بڑے ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ اور دیگر کامیاباں تو حاصل کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے اخلاقی اور کردار ی لحاظ سے ہم تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔

معاشرے میں فرد کے اخلاق و کردار کی تعمیر کے لیے مفکرین کی تحریریں فقط کتابوں اور الماریوں میں رہ گئی ہیں۔ کتاب ایک سوچ کو لے کر چلتی ہے آپ یوں سمجھ لیں کی کتاب کے لفظ اس بیج کی طرح ہوتے ہیں جو ایک تناور اور سایہ داردرخت پروان چڑھاتا ہے، کتاب اور اس کی تحریر جس قدار عمدہ ہو گی انسانی زندگی میں اتنا ہی نکھار آئے گا۔ ایک وقت تھا کہ ڈپٹی نذیر احمد کی شہکار کتاب ”مراۃ العروس‘‘ لڑکیوں کو پڑھا ئی جاتی تھی کہ وہ اگلی زندگی کے حوالے سے سمجھیں کہ ان کا کردار کیسا ہونا چاہیے مگر اب کتب بینی ترک کرکے جو ٹی وی ڈرامے اور سوپ دیکھے جارہے ہیں وہ کسی بھی طرٖح ان کے ا خلاقی کردار کی تعمیر میں مدو معاون ثابت نہیں ہو سکتے۔

جو پایا علم سے پایا بشر نے
فرشتوں نے بھی وہ پایا نہ پایا

زندگی کے مختلف پہلوں کو سمجھنے کے لئے کتاب بہترین استاد ہے۔ ہم نے اس استاد کو دور کر کے غیر تہذیب قسم کے ڈرامے کو اپنے سامنے رکھ لیا ہے جو کسی بھی طرح مثبت نہیں۔ ان ڈراموں کے زیر سایہ جو نسل تربیت پا ر رہی ہے وہ کیسی ہے یہ بھی پوشیدہ نہیں۔ انسانی زندگی اور اس کیسوچ کنوئیں کے مینڈک کی طرح ہوتی ہے جو ایک ہی دائرے میں گردش کرتی ہے مگر مطالعے کی عادت ہمیں اس مخصوص دائرے سے نکال کر باہر کی دنیا سے روشناس کراتی ہے۔ کتب بینی نعمت ہے۔

مشہور شاعر شہزاد نیر (برفاب اورچاک سے اترے وجود اور گرہ کھلنے تک کے منفرد لہجے کے شاعر)اس المیے کے بارے میں کہتے ہیں نوجوان نسل میں مطالعے کے رجحان میں خاصی کمی آئی ہے۔ اس کے اسباب ہمیں گرتی ہوئی علم دوستی اوربڑھتی ہوئی زرپرستی میں ڈھونڈنا ہو گی جبکہ برقی ذرائع ابلاغ نے نئی نسل کو کتاب سے مزید دور کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے برطانیہ اور فرانس میں لوگوں کو دورانِ سفرغریق مطالعہ دیکھا ہے یہاں سے ا نکی علم ترقی کے اسباب معلوم ہو جاتے ہیں۔ ہمیں انٹرنیٹ سے استفادہ ضرور کرنا چاہیے مگر یہ سب مطالعے کا بدل نہیں ہو سکتیں۔ حکومت تحصیل کی سطح پر کتب خانے قائم کر کے کتب بینی کو بڑھاوا دے سکتی ہے تاکہ معاشرتی اور اخلاقی زوالاور بدحال کو دور کیا جا سکے اور یہ کتب بینی سے ہی ممکن ہے۔

اچھی کتب کا مطالعہ چاہیے کسی بھی زبان کا ہو اس زبا ن کے تلفظ کی ادائیگی درست کرنے میں اہم کردار ادا کرتاہے اوران میں شائستگی پروان چڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ موجودہ نسل کو ملنے والی جدید مراعات نے جہاں اس کے ہاتھ سے کتاب لے کر آئی فون، آئی پیڈ پکڑا دیا ہے تو وہیں ان کی ذات کی شائستگی بھی متاثر ہوئی ہے اور تلفظ ختم ہونے کے ساتھ ساتھ گفتگو بھی غیر میعاری ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نسل بدتمیز کہلائی جا رہی ہے جس کی اہم ترین وجہ ان کتابوں سے دوری ہے جو کردار کی تعمیرکرتیں ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ پرانے کوٹ سے تو کام چلایا جا سکتا ہے مگر نئی کتاب ضرور ضرید لو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).