گائے کے گوشت کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بھارت اور انتہا پسند ہندو


اس سال عید الضحٰی کے موقعے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں پر بہمانہ تشدد کے متعدد واقعات سامنے آئے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ان واقعات میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے بزرگ اور باریش مسلمانوں کو بے دردی سے مارتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان تمام واقعات میں بزرگ مسلمانوں کو صرف اس بناء پر لہولہان کردیا گیا کہ اس پر گائے کو ذبح کرنے کا شبہ تھا۔ بہت سے پر تشدد واقعات سوشل میڈیا سے ہٹا دیے گئے کہ ان میں بہت زیادہ خون اور خوفناک صورتحال دکھائی دے رہی تھی۔

اسی طرح بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایک مناظر بھی منظر عام پر آئے جن میں مقامی پولیس اہلکار اپنی نگرانی میں مساجد میں اعلان کرواتے دکھائی دیے کہ جس شخص نے گائے کو ذبح کرنے کی کوشش کی تو اس کو سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اس ضمن میں اترپردیش کے وزیراعلیٰ ادیتیہ یوگی ناتھ نے پولیس کو خصوصی ہدایت جاری کیں گائے کی قربانی کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی

بھارت کے جنونی ہندو گروہوں کو بابری مسجد کے بعد سے ایک ایسے معاملے کی تلاش تھی جس کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کے خلاف ہندوستان گیر محاذ بنا سکیں مودی سرکار نے آتے ہی ان کا کام آسان کرتے ہوئے بالآخر گائے کے تحفظ کے نام پر ایک ایسے حساس اور خطرناک معاملے کو ہوا دے دی ہے جواب ہولناک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ بے جی پی کے اہم رہنما اپنی تقاریر میں کھل کربار بار کہہ چکے ہیں کہ گائے کے کوشت کھانے والے کے لئے بھارت میں اب کوئی جگہ نہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں دو درجن سے زائد مسلمانوں کو پرتشدد واقعات میں صرف اس بناء پر موت کی گھاٹ اتار دیا گیا کہ ان پر گائے کو ذبح کرنے سلاٹر ہاوس کو فروخت کرنےکا الزام تھا۔

اس سال مئی کے وسط میں پینتالیس سالہ سراج خان کو گائے ذبح کرنے کے شبے پر متعدد افراد نے تشدد کر کے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ مدھیہ پردیش کے ضلع ستنا میں پیش آیا اس واقعے میں سراج خان کا ایک ساتھی شکیل مقبول بھی شدید زخمی ہوا تھا۔

12 جولائی کو ستنہ ڈسٹرک کے گاؤں میں بھی ایک مسلمان کو قتل کردیا گیا تھا اسی طرح 20 جولائی کو رام گڑھ کے علاقے الور میں دو نوجوان اکبر اور اسلم ایک ایک گائے کو پیدل اپنے ہمراہ لے جا رہے تھے کہ ہندو ہجوم نے گھیر کر گائے کی ملکیت سے متعلق پوچھا۔ ہجوم کا خیال تھا کہ دونوں نوجوان گائے کو ذبح کرنے یا فروخت کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں اور دونوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

بھارت کی انتہا پسند حکمران جماعت بے جی پی کے جنونی ہندو ایک طرف تو غریب مسلمانوں کو گائے ذبح کے الزام میں قتل کررہے ہیں یا پھر تشدد کرکے عمر بھر کے لئے معذور کیا جارہا ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو ایک انکشافات سامنے آتے ہیں ان کے اعداد شمار پر یقین نہیں ہوپاتا۔ لیکن ہندو انتہا پسند ان تمام حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود ادھر توجہ دینے کی بجائے محض غریب مسلمانوں پر ظلم ڈھانے پر ہی اکتفا اسکیے کررہے ہیں کہ وہ ان کا ”آسان ٹارگٹ“ ہیں۔

پوری دنیا میں مجموعی طور پرایکسپورٹ ہونے والے 94 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن بیف کے برآمد کنندگان میں بھارت سرفہرست ہے جبکہ اس کے بعد برازیل کی باری آتی ہے۔ بھارت 18 لاکھ پچاس ہزار میٹرک ٹن بیف کی ایکسپورٹ کے ساتھ پوری دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا 13 لاکھ 85 ہزار میٹرک ٹن گوشت ایسپورٹ کرتا ہے امریکہ سے 11 لاکھ 20 ہزار میٹرک ٹن گوشت ہر سال ایکسپورٹ کرتا ہے اسی طرح نیوزی لینڈ اور کینڈا کا شمار ان ممالک کے بعد ہوتا ہے۔

بھارت میں گوشت ایکسپورٹ کرنے والی سب سے بڑی کمپنی الکبیر ایکسپورٹرز کا نام سے جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ یہ کمپنی کسی مسلمان بھارتی کی ملکیت ہے لیکن یہ صرف نام کا دھوکہ ہے کیونکہ بھارت کی یہ سب سے بڑی گوشت ایکسپورٹ کرنے والی اس کمپنی کے مالک کا نام ستیش سبروال ہے جو کہ ایک کٹر ہندو ہے۔ الکبیر ایکسپورٹرز کا پراسسنگ یونٹ 400 ایکٹر پر محیط ہےاسی طرح گوشت ایکسپورٹ کرنے والی تمام دس بڑی کمپنیوں کے نام مسلمان کمپنیوں کے ناموں کی طرز پر ہیں لیکن ان تمام کمپنیوں کے مالک ہندو ہیں۔ جیسے عربین ایکسپورٹرز لمیٹڈ کے مالک کا نام سنیل کپور ہے اور اس کمپنی کا ہیڈ آفس ممبئی کے مرکز میں واقع ہے۔ ایم کےآر فروزن فوڈ ایکسپورٹرز کے مالک کا نام مدن ایبرٹ ہے۔

النور ایکسپورٹرز کے مالک کا نام سنیل سود ہے۔ اے او وی ایکسپورٹرز پرائیوٹ لمیٹڈ کے مالک کا نام او پی اروڑا ہے۔ اسٹینڈرڈ فروزن فوڈ ایکسپورٹرز کے مالک کا نام کمل ورما ہے۔ بھارتی محکمہ APEDA کے تحت رجسٹرڈ یہ کمپنیاں ویسے تو معاہدے کے تحت صرف بھینس کا گوشت پراسس کرنے کی پابند ہیں لیکن اندرون خانہ بڑے پیمانے پر گائے کا گوشت پراسس کیا جارہا ہے۔ اور حیران کن امر یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو گائے کی سپلائی کرنے والے زیادہ تر دلالوں کا تعلق دو بڑی سیاسی جماعتوں بی جے پی اور گانگرس سے ہے جو ان کمپنیوں کو گاؤ ماتا کہ فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ بھتہ الگ سے لیتے ہیں۔

اب یہ تمام اعداد شمار ان انتہا پسند ہندوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں کہ ایک طرف وہ ایک بیمار گائے کو فروخت کرنے والے مسلمان کو قتل کردینے سے گریز نہیں کرتے ہیں تو دوسری جانب ان ہی کی جماعت اور تنظیموں کے عہدیدار گوشت ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں کو نہ ان کی گاؤ ماتا نہ صرف بڑے پیمانے پر سپلائی کررہے ہیں بلکہ ان کمپنیوں سے باقاعدہ بھتہ بھی وصول کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).