وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو شہد کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہیے


ہمیں معلوم ہے کہ مسائل و مشکلات کا ایک کوہ عظیم ہے اور اسے سر کرنے کے لئے ہمارے پاس وسائل کی شدید عدم دستیابی ہے۔ عمران خان نے حالیہ انتخابات میں اپنی کامیابی اور وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے فورا بعد ان تمام مسائل کا تفصیلی جائزہ پیش کیا تھا اور ان اقدامات کا بھی ذکر کیا تھا جو ان کے حل کے لئے وہ کرنا چاہتے ہیں۔ کابینہ کے اب تک ہونے والے اجلاسوں میں ایسے کئی فیصلے کیے گئے ہیں جن کا مقصد عوامی مسائل کا حل ہے۔

ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ حکومت کو اپنے ابتدائی دنوں میں ہی امور خارجہ کے محاذ پر متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جن میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے عمران خان کو مبارکباد کے پیغام اور امریکی وزیرخارجہ پومیپو کی ہمارے وزیراعظم کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو پراندرون ملک اٹھنے والا سیاسی طوفان بھی شامل ہیں۔

ان تمام داخلی اور خارجی حالات کی سنگینی اپنی جگہ مگر جو اپیل ہم کرنے جا رہے ہیں اس کی منظوری ہماری نئی نویلی حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی توجہ ان اہم امور سے ہرگز ہٹنے نہیں دے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری التجا پر عمل کے لیے حکومتی خزانہ سے ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوگی۔ اور کیونکہ اس پر عمل سے خلق خدا کا بلاتفریق بھلا ہو گا جس کا اجر محترم وزیراعظم ضمنی انتخابات اور پانچ سال بعد ہونے والے انتخابات میں دو تہائی اکثریت کو صورت میں ضرور پائیں گے۔ تمہید شاید کچھ طویل محسوس ہو مگر کیونکہ ہم ضرورت مند ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عرضی میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہے۔

اب ہم مختصرا شہد خاص کی کجھ خاص خصوصیات بھی بیان کرتے چلیں کیونکہ ہماری اپیل اس تریاق کے گرد ہی گھومتی ہے اور اس کی خصوصیات سے آشنائی محترم وزیراعظم کو ہماری درخواست پر ہمدردانہ غور کرنے پر مجبور کرے گی۔ سب سے ارفعٰ خصوصیت اس شہد خاص کی یہ ہے کہ اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ لیکن کیونکہ ہم اپنے وزیراعظم جن کی مصرفیات کا مختصر حوالہ اوپر درج کر دیا گیا ہے، کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ اس سسلسلہ میں ہم اپنی مثالوں کو حالیہ اور گذشتہ صدی تک ہی محدود رکھنے کی کوشش کریں گے۔

ہمارے بیشتر حکمران کسی نہ کسی طرح جمہوریت کی ماں سمجھے جانے والے برطانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے حال ہی میں نا اہل ہوئے وزیراعظم نواز شریف کے فرزند اور فلیٹس وہیں ہیں جبکہ موجودہ وزیراعظم کے سسرال اور فرزند بھی اسی ملک کے رہائشی ہیں۔ جنگ عظیم دوئم میں برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل تھے۔

ونسٹن چرچل کو ہماری معلومات کے مطابق ایک اعلی پائے کا سیاستدان اور مدبر اور لکھاری تصور کیا جاتا ہے۔ ونسٹن چرچل کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ شہد خاص کا استعمال تواتر اور باقاعدگی سے کرتے تھے۔ شاید اس بات میں تھوڑا مبالغہ ہو مگر سنتے ہیں رات سونے سے پھلے اور صبح بیدار ہونے کے بعد وہ شہد خاص سے ضرور مستفید ہوتے تھے۔ جنگ عظیم دوئم کے ایک اور رہنما جوزف سٹالن بھی شہد خاص کے باقاعدہ استعمال کے لیے کافی مشہور تھے۔ اگر علم کے میدان کی طرف آئیں تو نوبل انعام یافتہ برٹرانڈ رسل جن کی فلسفہ اور ریاضی کے شعبہ جات میں خدمات کی پوری دنیا معترف ہے اور جنھوں نے The Conquest of Happiness کے نام سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے، بھی شہد خاص کا استعمال کرتے تھے۔ ہمارے اپنے وطن عزیز میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو ان کے اپنے بیان کے مطابق کبھی کبھار شہد خاص کا استعمال کرتے تھے۔

پاکستان کے انقلابی اور عوامی شاعر حبیب جالب جنھوں نے کسی ’صبح بے نور‘ کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکار کیا بھی پابندی سے شہد خاص کا استعمال کرتے تھے۔ پاکستان کے تناظر میں سیاسی اور ادبی اور دیگر شعبہ جات سے ایسی کئی اعلی پائے کی شخصیات کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جنھوں نے شہد خاص کا استعمال کیا۔ لیکن کیونکہ ہماری خواہش ہے کہ یہ تحریر شائع ہو جائے اور ہم اپنوں اور غیروں کے بیجا تنقید سے بچ جائیں اس لئے ان شخصیات کا ذکر نہ کرنے ہی میں ہم عافیت سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمیں کامل یقین ہے کہ شہد خاص کے فوائد سے محترم وزیراعظم بخوبی آگاہ ہیں۔

ہمارا ماننا ہے کہ مذکورہ بالا شخصیات نے اپنے مخصوص شعبہ جات میں جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے اس میں شہد خاص کا ’خاص‘ ہاتھ تھا۔ ابھی چند سال قبل پانامہ پیپرز کے ہنگام میں پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم رکن اور اسوقت کے صوبائی وزیر علی امین گنڈاپور کی گاڑی میں شہد خاص کی ایک بوتل موجود تھی۔ پولیس اور مخالفین نے اس کا افسانہ بنا ڈالا۔ جو قابل مذمت ہے۔ پاکستان میں شہد خاص کے حوالہ سے ایک اور مسئلہ یہ ہے کے یہ تریاق ملک کے خواص کو تو میسسر ہے لیکن عوام تک اس کی رسائی پر پابندی ہے۔

ہماری وزیراعظم سے مودبانہ گذارش ہے کے ملکی اور بین الاقوامی تناظر میں شہد خاص کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے مہربانی فرما کراس پر سے پابندی اٹھا لی جائے تاکہ ہر خاص و عام کو اس تک رسائی میسر ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).