چارسدہ کی قیامت
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی خبر نظر آ رہی ہے۔ حوصلہ نہیں ہے کہ ٹی وی کھول کر بریکنگ نیوز دیکھ لوں۔ لگ یہی رہا ہے کہ نقصان بہت زیادہ ہو گا۔ بیس شہادتوں اور پچاس زخمیوں کی خبر نظر سے گزر چکی ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یونیورسٹی میں دو ہزار چھے سو طلبہ، اور باچا خان کی برسی کے سلسلے میں چھے سو مہمان موجود تھے۔ پتہ نہیں کتنی جانیں جائیں گی۔ پتہ نہیں کتنے گھر ہمیشہ کے لئے اجڑ جائیں گے۔ پشاور کے بچوں کی شہادت کا غم بڑا لگتا تھا، لیکن والدین کے لئے اولاد کی جوانمرگی سے بڑا صدمہ بھی کوئی ہو سکتا ہے؟
ابھی کاروائی جاری ہے۔ اور ہمارے درمیان سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ یہ بھارت نے پٹھان کوٹ کی کاروائی کا جواب دیا ہے۔ ثبوت میں بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے اس بیان کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو کہ انہوں نے پٹھان کوٹ حملے کے بعد دیا تھا کہ \”پاکستان نے ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ ائیر بیس حملے کے ملزموں کے خلاف عملی طور پر کوئی کاروائی نہیں کی ہے، اب ہمارا صبر جواب دے چکا ہے، اب ہم کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے اور دنیا ایک سال کے اندر اس کے نتائج بھی دیکھے گی\”۔
کیا یہ تھیوری پیش کرنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے پاس ایسے پاکستانی موجود ہیں جو اس طرح اپنی جان دے کر بھی پاکستانی بچوں کو مارنے پر تیار ہیں؟ کیا بھارت نے پاکستانیوں کے خودکش دستے تیار کئے ہوئے ہیں؟ کیا یہ کہا جا رہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان بس پیسے لے کر جان دینے کو تیار ہے؟ برادران اگر ایسا ہے تو پھر ان کو بھارت سے زیادہ پیسے دے کر ان سے بھارت کو ایسے ہی نقصانات پہنچوا دو۔ اپنی صفوں میں سے یہ مارنے والے صاف کر دو تو باہر والے یہاں کیا کر لیں گے؟
باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والا حملہ بتا رہا ہے کہ اب یہ بربریت ہمارے ساتھ اس وقت تک رہے گی جب تک کہ مسلح تنظیموں کا مکمل خاتمہ نہیں کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس سے بچنے کا مستقل طریقہ کار سوچنا پڑے گا۔ آرمی پبلک سکول کے حملے کے وقت منٹوں کے اندر موقعے پر پولیس کی ریپڈ ریسپانس فورس پہنچ گئی تھی۔ شروع میں کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ان بچوں کا قتل عام کرنے کا کوئی سوچ بھی سکتا ہے۔ اس لیے اسے یرغمال بنا کر مطالبات منوانے کا عمل سمجھا گیا تھا۔ جب فون کالیں پکڑی گئیں اور اندر سے اطلاعات موصول ہوئیں تو اصل مقصد کا علم ہوا۔ سپیشل سروسز گروپ کی ضرار کمپنی کو تربیلا سے طلب کیا گیا۔ اسے تیاری کے لیے ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ چاہیے ہوتا ہے لیکن اس دن اسے بریفنگ کے بغیر ہی بیس منٹ کے اندر تربیلا سے پشاور بھیجا گیا۔ اس کے بعد کاروائی شروع ہوئی۔
لیکن اب باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس فورس کی اتنی نفری ہے کہ پورے ملک میں کسی بھی وقت ہونے والے حملے کو وہ سنبھال سکے؟ مارنے والے تو منٹوں میں مار ڈالتے ہیں، اس فورس کو تو دور دراز کے علاقے میں پہنچنے کے لیے کافی وقت چاہیے ہوتا ہے۔ ہمیں مغربی ممالک کی طرح اپنی پولیس کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک ریپڈ ریسپانس فورس ہی بنانی پڑے گی جس کی ٹریننگ ایس ایس جی کی ضرار کمپنی کے لیول کی ہو۔ وہ ضلعی مراکز میں تعینات ہو، اور ایسے کسی بھی حملے کے وقت مقامی سطح کے فیصلے پر ہی منٹوں کے اندر آپریشن شروع کرنے کی اہل ہو۔
اور خدارا پولیس کی نفری میں اضافہ کریں۔ پروٹوکول ڈیوٹی کے لیے کوئی الگ ادارہ بنا کر پولیس کو امن و امان قائم کرنے کی ڈیوٹی پر واپس بھیجا جائے۔ لیکن اہم تر یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کو مالی اور نظریاتی طاقت فراہم کرنے والوں کے ساتھ بھی سختی سے نمٹا جائے۔ ان کو بھی وہی سزا دی جائے جو کہ ان دہشت گردوں کے لئے سنائی جاتی ہے جن کی انہوں نے مدد کی۔
سندھ حکومت کی تقلید کرتے ہوئے باقی ملک میں بھی صرف حکومت کی طرف سے فراہم کئے گئے خطبات اور تقاریر کی اجازت ہو تاکہ منافرت کے پھیلاؤ کو محدود کیا جا سکے۔
غم بہت ہے، لیکن ایک امید بھی ہے کہ اب انہی تعلیمی اداروں سے وہ لوگ نکلیں گے جو اس وحشت و بربریت کے عینی شاہد ہیں، جنہوں نے اپنے پیارے کھوئے ہیں، اور یہی لوگ باقی نوجوانوں کو اس عفریت کے خلاف ایک آئیڈیالوجی فراہم کریں گے، کہ یہ بارودی ہتھیار سے زیادہ ذہنی ہتھیار کی جنگ ہے۔
آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی پر ٹوٹنے والی اس بربریت کی ڈاکیومینٹری بنا کر اسے ہمارے تعلیمی اداروں میں دکھایا جانا چاہیے، اور ان شہیدوں کے یادگاری میوزیم بنائے جانے چاہئیں جہاں ہمارے بچے دہشت گردی کے اس عفریت کی تباہ کاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس سے نفرت کرنا سیکھ سکیں۔
خدا سے بس اب خیر کی دعا ہے۔
- کراچی: انصافی ووٹر حافظ کے نام سے کنفیوز ہو گئے - 15/06/2023
- ملک ریاض کو کوئی لالچ نہیں - 08/06/2023
- ایک ہینڈسم کی کہانی جو خود اپنے عشق میں گرفتار ہوا - 27/05/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).