عمران خان اور غریب کی چھوری


کہتے ہیں ایک عورت ہے جو گھر سنبھالتی ہے گھر کا خیال رکھتی ہے اور اگر وہ نہ ہو تو اس کے بغیر ایک دن بھی گزارنا مشکل ہے اور وہ عورت ہے کام والی ماسی۔ مذاق کی بات ایک طرف رکھیں تو بھی شاید آج کی حقیقت یہی ہے، کہیں بھی نظر دوڑا لیں خاتون خانہ نوکری پیشہ ہوں یا گھریلو، سسرال میں رہتی ہوں یا علیحدہ سب کی زبان پر یہی الفاظ ہیں کہ کام والی کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے عادات و اطوار بدل گئے ہیں خواتین کو کافی سہولت حاصل ہو گئی ہے خصوصا بچیوں کے بارے میں سوچ کافی بدل گئی ہے۔

آج کے زمانے میں بچیوں کو گھریلو کام کاج سکھانے سے زیادہ ان کی پڑھائی لکھائی پر توجہ دی جاتی ہے۔ ورنہ پہلے تو لڑکیوں کو پڑھانے کا کوئی تصور ہی نہ تھا ادھر بچی نو برس کی بھی نہ ہوئی کہ یہ بڑی سی چادر اوڑھا دی اور لڑھکا دیا باورچی خانے میں۔ اب وہ ننھی سی جان خود کو سنبھالے، چادر سنبھالے یا باورچی خانہ۔ مگر ایسا ہی ہوتا تھا اور چونکہ سبھی گھروں میں ایسا ہوتا تھا تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ مجھے یاد ہے والدہ گھر کا سارا کام خود کرتی تھیں، اور گھر کے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد ان کا مشغلہ سینا پرونا اور کاڑھنا تھا، کبھی کپڑے سیے جاتے تو کبھی سویٹر بن رہی ہوتیں، قمیضوں کے گلے، تکیے،اور رومالوں سے لے کر بیڈ شیٹ تک پہ کڑھائی ہو رہی ہوتی۔ خدا جانے ان کے پاس اتنا وقت کہاں سے آتا تھا۔ اب جیسے ہم سوشل میڈیا پہ ایک دوسرے کے ساتھ چیزیں شیئر کرتے ہیں تب خواتین کڑھائی کے نمونے اور سوئٹروں کے ڈیزائن شیئر کرتی نظر آتی تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ روایت تو ختم ہو چلی ہے مگر خوش کن بات یہ ہے کی لڑکیوں کی پڑھائی اور ایمپاورمنٹ کو ترجیح دی جارہی ہے۔ مگر معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے کچھ خاص فرق نہیں آیا خاص طور پر لڑکیوں کے لئے۔

پچھلی سردیوں کی بات ہے کام کی تلاش میں ایک لڑکی میرے پاس آئی اس کی عمر کوئی اکیس بائیس برس ہوگی اور اس نے چھ سات ماہ کی بچی اٹھا رکھی تھی، کام کے معاملات طے کرتے وقت اس نے بتایا کہ وہ بچی کو اپنے ساتھ لائے گی، مجھے حیرت تھی کہ گود میں اٹھانے والے بچے کے ساتھ وہ بھلا کام کیسے کر پائے گی مگر اس کا کہنا تھا کہ وہ سب جگہ ایسے ہی کام کرتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی چادر اتاری زمین پر بچھائی، بچی کو اس کے اوپر لٹایا اور اسے چمکارتے ہوئے بولی چل چھوری تو ادھر آرام سے لیٹ میں جھٹ سے کام ختم کر لوں۔ درمیانے سے کپڑے پہنے جو ٹھنڈ روکنے کے لیے بالکل کافی نہ تھے ٹھنڈے اور سخت فرش پہ محض ایک چادر کے اوپر بچی آرام سے لیٹ گئی اور ہاتھ پاؤں چلانے لگی ایسا لگتا تھا وہ اس کی عادی ہے۔ میں نے بچی کو اٹھا کے اسے پکڑایا تو وہ بھانپ گئی اور کہنے لگی آپ تو ایسے ہی پریشان ہو گئی ہو بس ایک دو مہینے میں یہ روٹی کھانے لگ جائے گی تو اس کو گھر چھوڑ آیا کروں گی، میری بڑی بیٹی پانچ سال کی ہے بڑی سمجھدار ہے اس کو سنبھال لے گی۔ اس کی باتوں پہ مجھے حیرت بھی تھی اور افسوس بھی،

تقریباً بیس برس کی ایک دھان پان سی لڑکی جو چار بچوں کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ کئی گھروں کا کام کرتی تھی، پانچ سالہ معصوم بچی جو اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتی تھی، اور چند ماہ کی ایک چھوٹی سی بچی جسے یہ بھی معلوم نہ تھا کی نرم اور گرم گدا کسے کہتے ہیں۔ میں نے اسے کام دینے سے انکار کردیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے کام کی اشد ضرورت تھی یہ سب ہر روز دیکھنے کے مجھ میں ہمت نہ تھی۔ جاتے وقت وہ اپنی بچی پر نظریں گاڑے مایوسی سے بولی تھی ہماری زندگی تو ایسے ہی گزرتی ہے غریب کی چھوری ہے یہی اس کا نصیب ھے۔ عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب سنا تو وہ بچی یاد آگئی۔ دعا کرتی ہوں کی تبدیلی اس غریب کی چھوری کیلئے بھی آئے۔ بدحالی اور غیرانسانی معیار زندگی جس پر وہ رہنے پہ مجبور ہیں اس میں بہتری آئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عمران خان کو اس کے نیک ارادوں میں کامیاب کرے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).