جونیجو کی بدمعاشی اور نصرت بھٹو کی خواہش


صرف میں ہی ایک بدمعاش

جب اٹھائیس مئی انیس سو اٹھاسی کو جونیجو حکومت ڈسمس کردی گئی تو صدر ضیا الحق نے جونیجو کو ڈنر پر مدعو کیا اور بتایا کہ ان کی کابینہ کے چند وزرا کو نئی کابینہ میں بھی لیا جائے گا۔ اس پر جونیجو نے کہا تو کیا کابینہ میں صرف میں ہی ایک بدمعاش تھا۔ اس پر ضیا الحق نے کوئی جواب نہیں دیا۔

صدر، فوج کے سربراہ اور امریکہ

اکتوبر انیس سو نوے کے انتخابات کے بعد جب میں قومی اسمبلی کا سپیکر بنا تو میں نے نواز شریف سے کہا کہ میں آپ سے عمر میں بڑا ہوں اور اپنے والد کے زمانے سے سیاسی گرم و سرد دیکھتا آرہا ہوں۔ میرا مشورہ ہے کہ اگر آپ کامیاب رہنا چاہتے ہیں تو صدر، فوج کے سربراہ اور امریکہ سے بہتر تعلقات رکھیں اور بھارت کے خلاف کبھی اعلانِ جنگ نہ کریں۔ اس پر نواز شریف نے میری کلائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ بڑی اچھی گھڑی باندھی ہوئی ہے۔

نصرت بھٹو کی خواہش

دسمبر انیس سو نوے میں ایک پارلیمانی وفد میری سربراہی میں آسٹریلیا گیا جس میں بیگم نصرت بھٹو بھی شامل تھیں۔ دورے کے آخر میں سڈنی ہاربر میں لنچ کے دوران میں نے بیگم صاحبہ سے پوچھا کہ آنے والے دنوں کے تعلق سے ان کی کیا خواہش ہے۔ بیگم صاحبہ نے چند لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور کہا کسی یورپی ملک میں سفارت۔
میں نے کہا سمجھ لیں ہوگیا۔

تم مذاق کر رہے ہو نا۔
نہیں میں بالکل مذاق نہیں کر رہا آپ ملک کا نام بتائیں۔
فرانس۔ میں فرانس جانا چاہوں گی۔
ہوگیا۔ آپ تیاری کریں۔

پاکستان واپسی پر میں نے وزیرِاعظم نواز شریف سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے بیگم صاحبہ کو بتایا کہ منظوری مل گئی ہے۔ بیگم صاحبہ نے کہا کہ وہ کل تک حتمی جواب دیں گی۔ جب میں نے اگلے دن فون کیا تو انہوں نے انکار کردیا۔ غالباً بے نظیر نے ان پر دباؤ ڈالا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ بے نظیر یہ سمجھ رہی ہو کہ میں اس طرح کی پیش کش کے ذریعے ماں بیٹی میں پھوٹ ڈلوانا چاہتا ہوں یا پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہوں

پروٹوکول افسر، نرم تکیے

میں ایک پاکستانی وفد کے ہمراہ شمالی کوریا پہنچا۔ میری اہلیہ زیب بھی ہمراہ تھیں۔ زیب نے پروٹوکول آفیسر سے کہا کہ وہ ہاؤس کیپر سے نرم تکیے منگوا دے کیونکہ کمرے میں موجود تکیے خاصے سخت ہیں۔ یہ بات ہے رات نو بجے کی۔ ڈیڑھ بجے شب پروٹوکول آفیسر نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو وہ مسکرا رہا تھا اور اس کے ہاتھوں میں دو تکیے تھے۔ میں نے پوچھا کہ اتنی دیر کیوں ہوگئی۔ پروٹوکول آفیسر نے کہا کہ اصل میں ہوٹل والوں کے پاس نہیں تھے۔ چنانچہ میں نے ایک فیکٹری کھلوا کر وہاں سے یہ دو تکیے بنوا لیے۔ یوں اتنی دیر ہوگئی جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔

فاروق لغاری اور بینظیر کی برطرفی

چھبیس اکتوبر انیس سو چھیانوے کو نواز شریف نے مری سے اسلام آباد آتے ہوئے مجھے فون کیا کہ فوراً مری کی طرف روانہ ہوجاؤ جب ہماری گاڑیاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائیں تو تم میری گاڑی میں آجانا۔ ایک بات کرنی ہے۔ میں نے ایسا ہی کیا اور ہم چھپر کے نزدیک ملے جہاں میں نواز شریف کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ آہستہ آہستہ ڈرائیو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ صدر لغاری نے شاہد حامد کے ذریعے رابطہ کر کے مجھ سے کہا ہے کہ بے نظیر کو برطرف کیا جارہا ہے اور صدر کو ہماری حمایت چاہیے۔ نواز شریف نے اس کے بعد کہا کہ بے نظیر نے بھی یہ پیغام بھیجا ہے کہ اگر ہم دونوں ہاتھ ملا لیں تو صدر کی چھٹی کی جاسکتی ہے اور دونوں جماعتیں ایک ضابطہ اخلاق پر راضی ہوجائیں تو سیاسی انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بھی رک سکتا ہے۔ دس روز بعد فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔

اس سیریز کے دیگر حصےجب ایک فوجی نے بھٹو کی پٹائی کر دیایک بھارتی وزیراعظم کے والد پاکستانی دستور ساز اسمبلی کے رکن نکلے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).