شیخ رشید کی وزارت میں ریلوے کا آرام حرام ہے


”آرام حرام ہے“ کا نعرہ یا سلوگن پہلے پہل انڈیا کے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اختیار کیا تھا یا پنڈت جواہر لعل نہروکے ذہن کی اختراع تھی۔ اس بارے میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ در اصل انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے اور بٹوارے کے بعددونوں مما لک یعنی ہندوستان اور پاکستان کی مملکتوں کے اداروں اور عوام کو کام کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک طرف پاکستان کے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح نے کام، کام اور کام کے پیغام کا استعمال کیا تو دوسری طرف بھارت کے نیتاؤں نے ”آرام حرام ہے“ جیسے سلوگن کا پرچار کیا۔

ایسا لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے مگر اب کی بار بھارتی نیتاؤں کے سلوگن کی بازگشت پاکستان کے نو منتخب وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی زبانی سننے کو ملی ہے۔ نیا پاکستان بنانے میں اور تبدیلی کے سفر میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے شیخ صاحب تو ملک کے داخلی امور میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہ رہے تھے مگر کپتان نے یا ہو سکتا ہے“کسی اور“ نے داخلہ کی بجائے ان کو ایک بار پھر ریل کے لوہے کو گرم رکھنے کے کام پہ مامورکر دیا ہے۔

شیخ صاحب عوامی بندے ہیں حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں میلہ لگائے رکھتے ہیں اورجب میلہ لگانے کے لیے ریلوے کا بھرا پرا پلیٹ فارم مل جائے توبھلاٹرین کہاں چھوٹنے دیں گے۔ فورا ہی پہلی گاڑی پکڑ لی اور ریلوے کو نیا سلوگن ”آرام حرام ہے“ عطا کر دیا۔ شیخ صاحب کی حاضر جوابی کا تو زمانہ معترف ہے۔ فی البدیہہ بذلہ سنج گفتگو اورفقرے بازی کے فن سے مالا مال ہیں یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک میں ہاٹ کیک کی طرح بکتے ہیں۔ اچھے خاصے اینکرز کوانٹرویو کے دوران زچ کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور مخالفین کو پچھاڑ نے کے فن میں بھی کمال حاصل ہے۔ مگر عوامی آدمی کی فقرے بازی ہر گاہ برداشت نہیں کی جاتی ایک بار تو وہی ہوا جو عوامی آدمی کے ساتھ ہوتا ہے یعنی جیل کی ہوا کھانا پڑی۔

گمان غالب ہے کہ وزارت سنبھالنے کے بعد ابتدائی میٹنگ کے دوران ہی شیخ صاحب کے ذہن کے کسی کونے کھدرے میں ”آرام حرام ہے“ کے سلوگن نے چست فقرے کی مانند کچوکا مارا ہو اور انہوں نے چھوٹتے ہی اسے پاکستان ریلوے کا سلوگن قرار دے دیاہو۔ یہ سلوگن اس سے پیشتر بھی کہیں استعمال ہو چکا ہے کے پس منظر سے آگاہ ہوں گے یا نہیں اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا سکتا۔

پاکستان ریلوے کے اصل اسٹیک ہولڈرز تو بے چارے وہ مسافر ہیں جن کا آرام حرام کرنے میں اس محکمے نے کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ بلورصاحب نے تو دل کو دکھانے والی مثالیں دینا شروع کر دی تھیں کہ فلاں فلاں ممالک میں ریل نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں بھی نہیں ہو گی تو کون سی قیامت آجائے گی وغیرہ وغیرہ۔ سنا ہے کہ پچھلی حکومت کے وزیر موصوف نے ریل کے نظام کو کچھ حد تک بہتر کیا ہے مگر اس کا تزکرہ بھی شیخ صاحب نے حرام قرار دیا ہے اس لیے چھوڑیں رہنے دیں۔

ہاں ایک بات کا دھیا ن رہے کہ“آرام حرام ہے“ کے سلوگن کوریل کے مسافروں سے دور رکھا جائے۔ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یہ سمجھ بیٹھیں کہ ریل کے سفرمیں آرام کی کوئی گنجائش نہیں۔ پہلے کی طرح کھڑے کھڑے یا فرش پہ بیٹھ کر ہی اپنی قسمت کو کوسا جائے گا۔ دنیاوی نظام کے رائج اوقات تو پہلے ہی ریلوے پہ کافی حد تک حرام ہیں۔ ہائے کیا لوگ ہوتے ہوں گے جوریل کے سفر کے دوران خوبرو چہروں کی دید کے ساتھ ساتھ کتابیں پڑھتے ہوں گے۔ نیند پوری کرتے ہوں گے یہ وہی لوگ ہوتے ہوں گے جن پہ ریل کے سفر کے دوران آرام حلال قرار دیا گیا ہو گا۔

انتظامی امور کے گروکا ماننا ہے کہ تبدیلی زندگی کے کسی بھی شعبے میں ایک دم قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کر پاتی بلکہ یہ مرحلہ وار ہوتی ہے اور ابتدا میں تو اس کو اچھی خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اس سلوگن نے ریلوے ملازمین اور افسران کے آرام کو واقعی میں حرام کر دیاہے اس کا واضح ثبوت سوشل میڈیا پر ریلوے افسران کی وائرل ہوتی ہوئی طویل چھٹیوں کی عرضیوں کی صورت میں آشکار ہو گیا ہے۔ چھٹیوں کی عرضیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ”نا بابا نا“آرام جیسی حلال سہولت کو ہم اپنے اوپر حرام قرار نہیں دے سکتے چاہے آپ کیسا ہی فتوی لے کر آ جائیں۔ اگر سرکاری نوکری میں بھی اپنے اوپر آرام حرام کر لیں تو حیف ہے ہماری قسمت پر۔

خدا غارت کرے ہمارے ملک پہ مارشل لاؤں کا آسیب طاری ہے کہ جمہوریت آنے کے بعد بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ یہ مارشل لا کی سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ کسی بھی محکمے کے ملازمین کو کام کی طرف راغب کرنے کے لیے ہمارے پاس دھونس دھمکی اور ڈراوے کے علاوہ کچھ ہے بھی تو نہیں۔ اور شیخ صاحب نے وہی کیا یعنی کام نہیں کرو گے تو ڈنڈا تو کھانا پڑے گا۔ شیخ صاحب کو کیا پڑی کہ وہ ابراہم موزلو اور ایسے ہی بے تکے ماہرین کی Motivational Theories کی ورق گردانی کریں تاکہ ریلوے کی ٹیم کو کام کے لیے راغب کیا جا سکے۔ لگتی ہے اس میں محنت زیادہ۔

شیخ صاحب کے بخشے گئے سلوگن کے بعد تو مجھے سلوگن بنانے والے اداروں اور نام نہاد ماہرین پہ ترس آ رہا ہے نہ جانے کیوں شب و روز کی محنت اور آئیڈیاز سے دماغوں کو کھپاتے رہتے ہیں۔ ادارے، پروڈکٹ یا سروس کے بارے میں مختلف اسٹیک ہولڈرز سے رجوع کرتے ہیں۔ سلوگن کو پروڈکٹ یا سروس کے استعمال کرنے والوں کے لیے با معنی، پر کشش، قابل توجہ اور سادہ بنانے کے لیے جتن کرتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی پیش نظر ہوتا ہے کہ اس جیسا یا ملتا جلتا سلوگن کہیں پہلے تو استعمال نہیں ہواہوا تاکہ خواہ مخواہ کاپی رائٹ کے جنجھٹ میں کہیں لینے کے دینے ہی نہ پڑ جائیں کے عمل سے نہ گزریں۔ سلوگن کو ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزار کے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ سلوگن بنانے والے ماہرین شیخ صاحب سے پلک جھپکتے ہوئے سلوگن بنانے کا ہنر سیکھ لیں دوسری صور ت میں ”دل میں اکاؤنٹ کھولنے“ جیسے لا حاصل سلوگن ہی بناتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).