بدیسی ادب: کیٹ شوپن کا معصوم


دن خوشگوار تھا۔ مادام نے کوچوان کو بگھی تیار کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ روشیل سے مل لیں مادام یہ سوچ کر مسکرا رہی تھیں کہ روشیل جو کل تک خود ایک ننھی سی بچی تھی آج ایک بیٹے کی ماں ہے۔

مادام کو وہ دن یاد آیا جب صاحب کی بگھی حویلی میں داخل ہوئی تھی جہاں ڈیوڑھی کے ستون کے ساتھ لگی تقریباٌ ڈیڑھ سال کی ایک بچی غافل سو رہی تھی۔ مادام اور گھر کے ملازمین بچی کے ارد گرد جمع تھے اور قیاس آرایاں ہو رہی تھیں کہ یہ کس کی بچی ہے؟ اس کا کیا کیا جائے؟

مادام پیار سے بچی کو دیکھے جارہی تھیں۔ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ مادام اور صاحب نے فوراً بچی کوگود لینے کا فیصلہ کرلیا۔

بچی کا نام روشیل رکھا۔ معصوم قہقہے گھر میں گونجنے لگے اور روشیل سب کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔

مادام کو یاد آیا کہ اس واقعے کے سولہ سال بعد ساتھ والی نو آبادی کے سب سے بڑے زمیندار شاربونو صاحب کے بیٹے آرماند نے اسے اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

دونوں خاندان ایک دوسرے کو مدت سے جانتے تھے۔ آرماند پیرس میں پیدا ہوا تھا۔ بڑے شاربونو صاحب کی شادی اچانک ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک بہت خوبصورت لڑکی کو پہلی مرتبہ دیکھتے ہی اس سے فوری طور پر شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ انجذبات کی شدت کا اظہار نو ماہ کے بعد آرماند کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔

مادام اور صاحب نے روشیل کے اصل ماں باپ کے بارے میں لاعلمی کو مد نظر رکھتے ہوئے آرماند کو احتیاط برتنے کو کہا۔ انہیں لڑکی کا پس منظر معلوم نہیں تھا۔ لیکن آرماند پیار کا ڈسا ہوا تھا۔ اس کا ارادہ مصمم تھا۔ شادی نہایت دھوم دھام سے ہوئی، ایک سال کے اندر اندر روشیل اور آرماند کے ہاں ایک پیارا سا بیٹا پیدا ہوا۔

مادام کی بگھی اب آرماند کی آبائی حویلی پر پہنچ چکی تھی۔ بڑے شاربونو صاحب تا حیات یہاں اکیلے ہی رہتے تھے۔ ان کی بیوی کا آرماند کے پیدا ہونے کے چند سال کے بعد انتقال ہو گیا تھا اور شاربونو صاحب آرماند کو پیرس سے امریکہ کی لوزیانہ ریاست میں لے آے تھے۔

روشیل نومولود بچے کو چھاتی سےلگائے بستر پر لیٹی تھی، مادام نے روشیل کو گلے سے لگایا اور جیسے ہی بچے پر نطر ڈالی تو چونک کر پوچھا، یہ کیا ہوا اس کو؟ یہ اتنا کیوں بدل گیا ہے؟

ہے نا؟ روشیل نےہنستے ہوے کہا، مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے دودھ میں چاکلیٹ گھول دی ہے، اس کی تو رنگت ہی بدل گئی ہے۔ کتنا بڑا ہو گیا ہے ڈیڑھ مہینے میں۔ کل آیا کو اس کے ناخن بھی کاٹنے پڑے، اتنے بڑے ہو گیئے تھے۔ ہے نا آیا؟

جی مس، آیا نے جواب دیا لیکن اس نےمادام سے آنکھیں نہیں ملائیں۔

مادام مسلسل بچے کو دیکھے جا رہی تھیں۔ وہ اسے گود میں اٹھا کر کھڑکی کے پاس لے گئیں، روشنی میں بچے کا جایزٔہ لیا اور تجسس بھری نظروں سے آیا کو دیکھا جو مادام سے نظریں چرا کر بظاہر کھڑکی سے دور کپاس کے کھیتوں کی جانب دیکھ رہی تھی۔

ہاں، مادام نے تفکر آمیز آواز میں کہا۔ بچے میں واقعی بہت تبدیلی آگئی ہے۔ آرماند کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

روشیل کا چہرہ فرط مسرت سے چمک اٹھا، ’اوہ امی جتنا آرماند خوش ہے اس سے زیادہ تو دنیا میں اور کوئی خوش نہیں ہو گا۔ اس نے تو کسی نوکر کو سزا تک نہیں دی جب سے میرا لاڈلا بیٹا پیدا ہوا ہے۔ تمام افریقی سیاہ فام غلام ہی نہیں ان کا سپروایٔزر تک حیران ہو رہے ہیں کہ آرماند صاحب کتنے رحم دل ہو گیے ہیں۔ صرف میرے بیٹے کی وجہ سے۔

امی میں اس قدر خوش ہوں کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہی؟ کہیں میں اس خواب سے جاگ تو نہیں جاوں گی؟ کہیں مجھ سے یہ خوشی چھن تو نہیں جائے گی؟ ‘

اس واقعے کے تقریبأ چھہ ہفتے کے بعد، ایک دن روشیل کو یوں احساس ہوا جیسے کوئی عجیب سی بات ہو رہی ہے۔ لگتا تھا ماحول میں کوئی ایسی پر اسرار سی چیز آ گئی ہے جو نظر تو نہیں آتی لیکن اپنی موجودگی کا شدید احساس دلا دیتی ہے۔

پھر اس نے لوگوں کو کھسر پھسر کرتے دیکھا، پچھلے چند دن سے غیر متوقع لوگوں نے گھر میں آنا شروع کر دیا تھا جو تجسس بھرے انداز میں اس سے ملنے آتے، بچے کو بہت غور سے دیکھتے، مگراس راز سے پردہ نہ ہٹاتے جس نے روشیل کا سکون برباد کر دیا تھا۔

پھر اچانک اس کے شوہر کے رویے میں ایسی کربناک تبدیلی رونما ہوئی جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اب آرماند اس سے آنکھ ملا کر بات نہیں کرتا تھا۔ اس نے گھر آنا بھی کم کر دیا تھا۔ زیادہ وقت زمینوں پر گزارتا۔ اگر گھر آتا بھی تو روشیل اور بچے کے پاس آنے سے اجتناب کرتا۔ غصے کے شیطان نے پھر اس کی طبیعت پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ وہ اکثر نوکروں کو ہنٹر سے اتنا پیٹتا کہ ان کی کھال ادھڑ جاتی۔ روشیل بے پناہ دکھی تھی۔ وہ زندگی سے تنگ آچکی تھی۔ اس کے لئے ایسی زندگی سے موت بہتر تھی۔

ایک دن تپتی دوپہر میں وہ اپنے کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اس کی کایا اچانک ایسے کیوں پلٹ گئی ہے۔ سوچ سوچ کر اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔

روشیل کے وسیع کمرے میں بچے کے لیے ٓآبنوس کا بنا بستر لگا تھا جس پر بچہ نیم برہنہ لیٹا ہوا تھا۔ بستر کی پایٔنتی پر ایک سیاہ فام افریقی ملازمہ کا دو نسلی لڑکا جو شاید پانچ یا چھ سال کا ہو گا مور کے پروں کا بنا ہوا پنکھا جھل رہا تھا۔ ملازمہ کا یہ لڑکا بھی نیم برہنہ تھا۔ روشیل بڑے غور سے اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی اور پھر اس کی نظر اپنے بچے پر پڑی۔ اس نے لڑکے کو دوبارہ دیکھا، پھر اپنے بچے کو دیکھا۔ اور پھر اچانک۔

روشیل کی کربناک چیخ سے پورا گھر گونج اٹھا۔ لیکن روشیل کو احساس تک نہیں ہوا کہ وہ چیخی تھی۔ اس کی رگوں میں خون جیسے برف بن گیا تھا، ملازمہ کا لڑکا گھبرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔ روشیل نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی آواز نے ساتھ نہ دیا۔ اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ لڑکا مور کے پروں کا پنکھا فرش پررکھ کر الٹے قدموں کمرے سے باہر نکل گیا۔

روشیل ایک مجسمے کی طرح بیٹھی رہی۔ اس کی نظریں اپنے بچے کے نیم برہنہ جسم پر تھیں۔ اس کا چہرہ خوف کی تصویر لگ رہا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2