یہ داغ داغ اجالا


عوام نجانے کب سے پا بجولاں ہیں۔ در بدر ہیں، نوحہ گر ہیں۔ یہ کیسے الیکشن تھے کہ پورے ملک پر سکتہ طاری ہے۔ ہارنے والوں سے زیادہ جیتنے والے حیران ہیں کہ یہ سب کیسے ہو گیا؛ ہم کیسے جیت گئے۔ بقول حامد میر “کچھ مہربان ایسے بھی ہیں کہ جو 25 جولائی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے سکتے میں ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب سکتے کی حالت میں کراچی سے اسلام آباد پہنچے اور جب بنی گالا میں عمران خان کو ملے تو خان صاحب نے قہقہہ لگا کر پوچھا، ’اُوئےتم کیسے جیت گئے‘؟ یہ صاحب سکتے سے باہر آئے اور بڑی مشکل سے مسکرا کر بولے، ’جی میں بھی جیت گیا‘۔‘‘

جس پارٹی کا اپنے متعلقہ صوبے سے جیتنا ممکن نہ تھا، اس نے پنجاب میں بھی حکومت بنا لی۔ خالی کرسیوں سے خطاب کرنے والا عالی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ کسی مخلوق کے لیے خالی کرسیاں بھر دینا چنداں مشکل نہیں تھا، لیکن ایسا کر کے پیغام دیا گیا کہ عوام کی طاقت اور حمایت کا خنّاس کہیں دماغ میں جڑ نہ پکڑ لے۔ ہر وقت یہ مقدّس احساس جا گزیں رہے کہ یہ سب تمھارا کرم ہے آقا، کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ اس مقدّس بارگاہ میں ہلکی سی بے ادبی بندے کو مقبول سے مردود کر دیتی ہے۔ حلف اٹھانے سے لے کر اسمبلیوں کی تحلیل تک ایک طویل پل صراط ہے، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز دھار ہے۔

جہاں تک عوام کی بات ہے ، ہم عوام تو ہر الیکشن میں ہار جاتے ہیں۔ تحریف برگردنِ وجاہت مسعود، “نہ اپنی ہار نئی ہے، نہ اُن کی جیت نئی‘‘۔ عوام نے فاطمہ جناح کو ووٹ دیا لیکن صبح اٹھ کر پتا چلا کہ کوئی خان صاحب جیت گیا ہے۔ حالیہ سے پچھلے الیکشن میں ہمیں باور کرایا گیا کہ خان صاحب جیت گیا تھا، لیکن کسی چڑیا والے نے نواز شریف نامی شخص کو جتوا دیا۔

اِس بار ہمارے ذہنوں میں یہ سیسہ انڈیلا جا رہا ہے کہ کسی ادارے یا حلقے کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ عزیز ترین ہم وطنوں کے مطابق یہ وطن عزیز کی معلوم تاریخ میں انتہائی شفاف ترین الیکشن تھا۔ یہ صرف عوام ہی کا فیصلہ تھا اور اسے قبول کرنا قومی سلامتی اور قومی مفاد کا تقاضا ہے۔ حضور پوچھنا یہ تھا کہ کیا عوام کے ووٹ کی کبھی کوئی حیثیت بھی تھی؟ کیا کسی بھی الیکشن میں عوام کا ووٹ ہی فیصلہ کن عنصر رہا ہے؟ ماضی بعید میں گھونگھٹ اٹھانے اور انگلی اٹھانے کی فرمایش بالترتیب حجلہ عروسی اور دربار قدوسی کی خلوتوں میں ہوتا تھا لیکن ماضی قریب میں تو سر بازار انگلی اٹھانے کا تقاضا کیا گیا۔

اب یہ فیصلہ کرنا شاید قبل از وقت ہو کہ 25 جولائی کی رات ایمپائر کی انگلی اٹھ گئی تھی یا ہمارے سوئے ہوئے نصیب جاگ اٹھے تھے۔ ہمارا نصیب تو نجانے کب سے در بدر رہا ہے، نوحہ گر رہا ہے، ہم مرثیہ نگاری کے امام ہیں۔ ہم میر انیس دبیر ہیں۔ یہ بلا وجہ نہیں۔ ہم کربلائیں بھگت چکے ہیں۔ ہم اپنے ووٹ کی حرمت کبھی فاطمہ جناح کی میّت کے سرہانے تلاش کرتے ہیں، کبھی گڑھی خدا بخش کی قبروں کے آس پاس اپنے ووٹ کے خون آلود پرزے، اپنی صد چاک جھولی میں بھرتے ہیں،کبھی نم ناک آنکھوں کے ساتھ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پر یہ مقدّس کاغذ اٹھا اٹھا کر چومتے ہیں، اور روتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں کیا برا تھا رونا اگر ایک بار ہوتا۔

منصفِ اعظم نے فرمایا ہے کہ ہارنے والے کا رونا ہماری روایات رہی ہے۔ حضور روایتوں کی طرف مت جائیے گا۔ حضور خود بھی عدلیہ کی درخشاں روایتوں کے امین ہیں۔ حضور پوچھنا یہ تھا کہ اگر عوام کے ووٹ کی کوئی حیثیت ہے، تو کیا اس مرتبہ ہمارے ووٹ کی حیثیت اور تقدّس کو تسلیم کر لیا گیا ہے؟ ریاستی موقف کے مطابق اگر واقعی یہ الیکشن شفاف تھے اور ہر قسم کی مداخلت سے پاک تھے اور یہ عوام ہی کا اکثریتی فیصلہ تھا اور اقتدار پر وہی شخص بیٹھ گیا جو عوام کا من چاہا اور لاڈلا تھا، تو یہی بیانیہ تو اڈیالہ کے قیدی نمبر 3422 کا ہے، کہ ووٹ کو عزت دو۔ یہی تو وہ کہ رہا ہے کہ انگلی نہیں انگوٹھے کا فیصلہ چلے گا اور ووٹ کی طاقت سے آنے والا شخص ہی عزت کا حق دار ہے۔

اگر الیکشن شفاف تھے تو پھر الیکشن بے شک عمران جیت گیا ہے لیکن بیانیہ تو نواز شریف کا جیت گیا ہے۔ لیاقت علی خان، فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو اپنی جانیں قربان کر کے بھی جس بیا نیے کو نہ جتوا سکے، وہی بیانیہ نواز شریف ایک ٹرم کی قربانی اور کچھ عرصہ جیل میں کاٹ کر جیت چکے ہیں۔

خُداوندانِ ارض سے عرض ہے کہ کیا سچ مچ ہمارے پامال شدہ ووٹ کی عزت بحال ہو چکی ہے؟ خود کو یقین دلانے کے لیے ہمیں دانتوں سے انگلی کاٹنے کی ضرورت تو نہیں پڑے گی؟ کیا ہمیں خوشی سے بھنگڑے ڈالنے کی اجازت ہے؟ کیا پھولوں کی پتیاں لے کر اپنے لیڈر پر نچھاور کرنے کی اجازت ہے؟ پولیس پکڑے گی تو نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).