قومی اور صوبائی میں مخصوص نشستوں پر خواتین کی نامزدگی میں ناانصافی


سیاسی جماعتوں کی جانب سے بندر بانٹ۔ ایک بار بھر جنوبی پنجاب نظر انداز۔

پاکستان انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے نئے سیاسی دور کا آغاز ہے اس بار بھی گزشتہ انتخابات کی طر ح ملک کی تمام بڑی بڑی جماعتوں نے اپنی زیادہ تر خواتین کی مخصوص سیٹیں پسماندہ اضلاع کی بجائے چند خاندانوں اور پسماندہ علاقوں کی بجائے چند بڑے شہروں میں تقسیم کر دی ہیں۔ تمام بڑی جماعتوں نے جنوبی پنجاب کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا ہے۔ پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں خواتین کی مخصوص نشتوں کا جائزہ لیں تو جمہوری طریقہ کار بجائے پسند اور ناپسند نظر آرہی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی خواتین امیدواروں کی حتمی فہرست کے مطابق پنجاب میں قومی اسمبلی کے لئے کل 33 خواتین میں سے پاکستان تحریک انصاف کو سولہ 16 جبکہ مسلم لیگ ن کو 15 خواتین، پی پی پی اور مسلم لیگ ق کو ایک ایک سیٹ ملی ہے۔ 33خواتین میں سے صرف 5 تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ باقی 28خواتین میں11کاتعلق صرف لاہور سے ہیں۔ باپ بیٹی، خاوند بیوی، ماں بیٹی غرض خاندان کے خاندان اسمبلی کے ممبر بن گئے۔

مسلم لیگ ن نے زیادہ تر سیاسی خاندان کی خواتین کو نوازا اور کارکن خواتین محروم رہیں، مخصوص سیٹ پر چوہدری جعفر اقبال کی فیملی کی خواتین قومی اور صوبائی کی ممبر بن چکی ہیں، شائستہ پرویز ملک، طاہرہ اورنگزیب، مریم اورنگزیب، شاہزہ فاطمہ خواجہ، مسرت آصف خواجہ، زہرہ ودود فاطمی، سمیت بہت سی خواتین اہلیت کی وجائے پسند ناپسند کی بنیاد پر قومی اسمبلی ممبر بن گئی ہیں۔ جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ ن سے صرف چار خواتین قومی اسمبلی کی ممبر بن سکی جن میں دو کارکن خواتین بھی شامل ہیں لودھراں سے ڈاکٹر ثمینہ مطلوب، اورڈی جی خان سے شہناز سلیم، شامل ہیں، چارخواتین کا تعلق لاہور سے ہے۔

تحریک انصاف کی قومی اسمبلی کی سولہ سیٹوں میں بھی جنوبی پنجاب کو نظرانداز کردیا گیا جنوبی پنجاب صوبہ کی حامی جماعت نے قومی اسمبلی کے لئے جنوبی پنجاب سے کسی خاتون ممبر نہیں بنایا جبکہ صرف لاہور سے 9خواتین تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی ممبر بن چکی ہیں جنوبی پنجاب کی واحد نمائیدگی شیریں مزاری کر رہی ہیں۔ سرگودھا اور خوشاب سے ایک ایک خواتین کارکن اور ضلعی صدر جویرہ ظفر بھی قومی اسمبلی کی ممبر بن گئی ہیں۔ پیلزپارٹی کی ایک ہی مخصوص سیٹ پر حنا ربانی کھر اسمبلی میں پہنچ ہوچکی ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر خواتین امیدواروں کا جائزہ لیا جائے تو ایک بار پھر یہاں بھی ہمیں طبقاتی اور علاقائی تقسیم واضع نظر آتی ہے۔ اس لسٹ میں دو باتیں نہایت اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ جن خواتین کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں زیادہ تر خواتین کا تعلق مخصوص سیاسی خاندانوں اور گھرانوں سے ہے جبکہ دوسری اہم بات یہ کہ سب بڑی جماعتوں نے خواتین کی نشستوں میں بڑے شہروں خصوصا اسلام آباد روالپنڈی، لاہور ترجیح دی ہے۔ چھوٹے اور پسماندہ اضلاع اور خصوصی طور پر جنوبی پنجاب کو اس حوالے سے نظر اندازکیا گیا ہے۔ پنجاب کے 18 اضلاع میں کسی خواتین کو نمائیدگی نہیں دی گئی۔ کل 66 سیٹوں پر کامیاب ہونے والی خواتیں میں 38 کا تعلق لاہور سے ہے پاکستان تحریک انصاف نے 17جبکہ مسلم لیگ ن نے 21لاہور سے تعلق رکھنے والی خواتین کوپنجاب اسمبلی کا ممبر بنا دیا ہے۔ لیہ بھکر، لودھراں، وہاڑی، حافظ آباد، جھنگ، ننکانہ، چنیوٹ، قصور، ساہیوال سے کسی خاتون کو نمائیدگی کا موقع نہیں ملا۔

ہم نے کوشش کی ہے کہ اس لسٹ کا جائزہ لیا جائے کہ پنجاب اسمبلی کے لئے جن خواتین کومخصوص نشستوں پر پارٹیوں نے نامزد کیا ہے ان میں زیادہ تر کا تعلق کن اضلاع سے ہے۔ یہ تمام تر معلومات الیکشن کمیشن کی ویب سائیٹ پر موجودفائنل لسٹ کی بنیاد پر ہے۔

پنجاب اسمبلی میں خواتین کومخصوص نشستوں کے لئے مسلم لیگ (ن)کی جانب سے کامیاب ہونے والی کل خواتین کی تعداد 30 ککاورصرف لاہور سے تعلق رکھنے والی کامیاب 21 خواتین ہیں(درج شدہ ا یڈریس کے مطابق) جب کہ جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع کے لئے صرف دو خواتین جیت کا پروانہ مل سکا۔ جن میں بہاول پور سے حسینہ بیگم، جبکہ رحیم یار خان سے بیگم عشرت اشرف شامل ہیں۔ گزشتہ دس سالوں سے رکن صوبائی اسمبلی ممبران شمیلہ اسلم وہاڑی کو اس بار مسلم لیگ ن نے نظر انداز کیا۔

اب ذرا تحریک انصاف کی بات کر لیں پنجاب اسمبلی میں 33خواتین کامیاب ہوئیں جن میں 17کا تعلق ایڈریس کے مطابق لاہور سے ہے۔ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کے اضلاع کو نہ صرف قومی اسمبلی میں نظرانداز کیا بلکہ صوبائی اسمبلی میں بھی صرف 4 خواتین کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ تحریک انصاف نے اپنی بہت سی اہم کارکنوں کو نظر انداز کردیا۔ جس میں لودھراں سے تحریک انصاف کی ضلعی صدر عفت سومروایڈوکیٹ جس نے ضمنی الیکشن میں لودھراں میں بھر پور کردار ادا کیا لیکن ٹکٹ سے محروم رہیں۔ اسی طرح وہاڑی سے لبنی احتشام ایڈوکیٹ کوبھی ٹکٹ نہ مل سکا۔

جبکہ مسلم لیگ ق کو دو سیٹیں ملی ہیں جن میں ایک کا تعلق لاہور اور دوسری کا منڈی بہاوالدین سے ہے۔ پیپلز پارٹی کو ایک سیٹ ملی جو انہوں نے راجن پور کو دی۔ یوں پنجاب کی کل 66خواتین میں سے 39کا تعلق لاہور سے ظاہر ہورہا ہے۔ اور پورے جنوبی پنجاب صرف 6 خواتین ہوں گی۔

اس تمام تجزیہ سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ جس طرح وسائل کا رخ پنجاب کے چند مخصوص اضلاع کی طرف ہوتا ہے اسی طرح نمائندگی کے وقت بھی پسماندہ اضلاع کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا ہے خصوصی طور پر جنوبی پنجاب کا نظر اندز ہونا باعث حیرت ہے۔ جبکہ سب پارٹیاں اس خطے کی محرومی کی بات کرتی ہیں۔ میں دعوی سے کہتا ہوں کہ ان اضلاع میں باصلاحیت سیاسی کارکن خواتین کی کمی نہیں ہے صرف پارٹیوں کی جانب سے توجہ کی کمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).