بائیسواں خواب نامہ۔۔۔۔۔۔ روحانیات۔۔۔نفسیات۔۔۔واردات


27 مئی 2018

مشرق میں بسنے والی رابعہ کو مغرب میں رہنے والے درویش کا آداب

درویش کا جی چاہتا ہے کہ وہ ایک دن رابعہ کو بتائے کہ اس نے بیوی بچوں والا خاندان تو نہیں بنایا لیکن اس نے دل والوں کا ایک خاندان تخلیق کر رکھا ہے جس کا نام family of the heart ہے۔ اس خاندان میں جو مرد اور عورتیں شامل ہیں درویش ان کا غائبانہ تعارف کروائے گا۔ یہ وہ دوست ہیں جن کے ساتھ درویش کی شامیں گزرتی ہیں جو اسے سوچنے اور لکھنے پر انسپائر کرتے ہیں۔۔

درویش نے رابعہ کا خط پڑھا تو کافی دیر تک خاموش ہو گیا۔ اس نے وہ خط دوبارہ پڑھا تا کہ اس میں چھپی معنویت اور گھمبیرتا کو جذب کر سکے۔ درویش اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہے کہ رابعہ نے اس پر اتنا اعتماد و اعتبار کیا کہ دل میں چھپے راز سے متعارف کروایا۔ درویش اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کی دلچسپی روحانیات کی نفسیات تک محدود ہے۔ اسے یوں لگتا ہے جیسے رابعہ روحانی بزرگوں کی محفلوں میں سلوک کی کئی منزلیں طے کر چکی ہے اور اس کی رسائی روحانیات کی واردات تک ہو گئی ہے۔

درویش اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس کے ارد گرد بیسیوں راز پھیلے ہوئے ہیں۔

زندگی اک راز ہے اور موت بھی اک راز ہے
شاعری بھی راز ہے اور آگہی بھی راز ہے

درویش چونکہ سائنس اور نفسیات کا طالب علم ہے اس لیے وہ ان رازوں کا تعلق خدا اور مذہب سے نہیں قوانینِ فطرت سے جوڑتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ پچھلی چند صدیوں میں سائنس‘طب اور نفسیات نے بہت ترقی کی ہے اور زندگی کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اس لیے وہ راز اب راز نہیں رہے۔ اس لیے اسے امید ہے کہ آئندہ چند دہائیوں اور صدیوں میں باقی رازوں سے بھی پردہ اٹھ جائے گا اور انسان اپنی ذات اور چاروں طرف پھیلی کائنات کو بہتر سمجھ سکے گا۔ انسان بقول عارفؔ

اپنی پہچان کرنے نکلا تھا۔۔۔۔۔۔ ایک عالم سے روشناس ہوا

درویش جب یونیورسٹی میں نفسیات کا طالب علم تھا تو اس کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ لفظ سائیکی psycheکا ترجمہ مغرب کے مذہبی دور میں روح soulکیا جاتا تھا اور اب مغرب کے سیکولر دور میں اسی لفظ کا ترجمہ ذہن mindکیا جاتا ہے۔

درویش جب اپنے چاروں طرف سات ارب انسانوں کو دیکھتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف روایتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ چار ارب مذہبی روایت سے دو ارب روحانی روایت سے اور ایک ارب سیکولر اور سائنسی روایت سے۔ درویش چونکہ سیکولر روایت سے وابستہ ہے اس لیے وہ کسی خدا‘ مذہب‘ روح اور جنت دوزخ پر یقین نہیں رکھتا۔

درویش کو یوں لگتا ہے جیسے درویش اور رابعہ کی دوستی ایک خدا کو ماننے اور ایک خدا کو نہ ماننے والے کی دوستی ہے لیکن اس دوستی کا حسن یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت اور فلسفہِ حیات کا احترام کرتے ہیں۔ یہ بات آج کے شدت پسند اور روایت پسند ماحول میں ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ درویش کا خیال ہے کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔ اور ہر انسان کا سچ اس کے لیے معتبر و محترم ہے۔

درویش کو یہ خط لکھتے ہوئے اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ جس طرح رابعہ نے اپنی روحانی سچ درویش سے شیر کیا ہے اسی طرح درویش بھی اپنا نظریاتی سچ رابعہ سے شیر کر رہا ہے۔ درویش کا رابعہ سے اختلاف الرائے کا اظہار اس کا رابعہ پر اعتماد و اعتبار کا آئینہ دار ہے۔

درویش کو رابعہ کے پچھلے خط یاد آ رہے ہیں۔ رابعہ نے ایک خط میں کچھ اس قسم کا جملہ لکھا تھا کہ وہ درویش کو کسی علم کے فرعون کی کہانی سنانا چاہتی تھی لیکن اس وقت اس کی ہمت کا جواب نفی میں تھا۔ اسی طرح مرد اور عورت کے رشتے کی بات کرتے ہوئے رابعہ نے کہا تھا کہ وہ پھر کبھی اس پر بات کرے گی۔

درویش رابعہ کو یاد دہانی کروا رہا ہے تا کہ کہیں رابعہ جو شعور اور لاشعور کی رو میں آدھی رات کو خط لکھتی ہے کہیں ان باتوں کو بالکل ہی نہ بھول جائے۔ درویش کو اب اپنے ایک فلسفی دوست ابرارالحسن کا تاریخ کے موضوع پر انٹرویو لینے جانا ہے اس لیے وہ رابعہ سے اجازت چاہتا ہے۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).