نیا پاکستان بنائیں وگرنہ اس ملک کو واپس پرانے پاکستان میں لے جائیں


دیکھیں، پرانے پاکستان میں پی ٹی آئی کے دوستوں کا مقدمہ یہ تھا کہ ان کی سیاسی جماعت کے سوا باقی سب جماعتیں کرپٹ ہیں، سرکاری خزانے کا بے دریغ خرچ کرتے ہیں، بیورو کریسی پر بادشاہ بن کر سوار ہیں اور سیاست کو انہوں نے کاروبار بنا لیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اب جبکہ نیا پاکستان بن چکا ہے تو وہ پروٹوکول کو سیکورٹی ضرورت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وی آئی پیز کی جان کو خطرہ ہوتا ہے اس لئے سخت پروٹوکول ضروری ہے۔ اور اگر سرکاری ہیلی کاپٹرز کے بے دریغ استعمال کی طرف ان کی توجہ دلائی جائے تو نت نئی تاویلات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہم سے یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ یہ سب پرانے پاکستان میں بھی تو چلتا تھا آپ اس وقت آپ کہاں تھے؟

نئے پاکستان میں، بیورو کریسی پر بادشاہی کے دو واقعات گزشتہ ہفتے میں ہو چکے ہیں۔ ایک محمکہ ریلوے میں جبکہ دوسرا پاکپتن میں پنجاب پولیس میں۔ یہاں بھی یہ دلیل ہے کہ پرانے پاکستان میں فلاں بھی تو کرتا تھا۔

گزشتہ عام انتخابات کے بعد، جہانگیر ترین کے زیر سربراہی جس طرح آزاد ممبران اسمبلی کی بولی لگتی رہی، اسے نئے پاکستان کے کرتا دھرتا حضرات بڑے دھڑلے سے سوشل میڈیا پر پیش کرتے رہے۔ تحریک انصاف کے دوست جہانگیر ترین کی کارکردگی پر پھولے نہیں سما رہے تھے حالانکہ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ جس جماعت نے میاں نواز شریف کو نا اہل کیا ہے وہ عدالت (جو کہ تحریک انصاف والوں کی فیورٹ بھی ہے ) جہانگیر ترین کو نا اہل قرار دے چکی ہے۔

عام انتخابات کے بعد آزاد ممبران اسمبلی کو اپنی طرف مائل کرنے کا کلچر پاکستان میں نیا نہیں مگر یہ ہمیشہ پردے کے پیچھے ہوتا تھا اور یہی جماعت انصاف اسے جمہوریت کی تذلیل قرار دیتی تھی۔ ذرا سوچیے اگر مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی اس طرح آزاد ممبران اسمبلی کو اپنی طرف کھینچ لے جاتی تو نئے پاکستان کے متوالوں نے جمہوریت کو اور پاکستانی نظام پارلیمنٹ کو کتنی گالیاں دینی تھیں؟ اور میڈیا نے جو ہاہاکار مچانی تھی الحفیظ الامان۔

ذرا سوچیے یہ جو آزاد ممبران اسمبلی کو مبینہ طور پر کروڑوں روپے دیے گئے یہ سب دولت کہاں سے آئی؟ علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے سیٹھ جب تحریک انصاف پر اپنے کروڑوں خرچ کرتے ہیں تو کیا وہ اپنے کاروبار کی زکوٰۃ نکال رہے ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ پاکستان کی سیاسی معیشت (Political economy ) ہے یہاں دولت اور سیاست اگر ساتھ ساتھ نہ چلیں تو دونوں میں سے کسی ایک میں کامیابی ممکن نہیں۔ علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے سیٹھوں نے اس ریاست سے خصوصی مراعات لے کر جتنا خرچ کیا ہے اس کا دگنا تگنا کمانا ہے۔ یوں جب کوئی سرپھرا گستاخ صحافی ایسا کوئی سکینڈل لے آئے گا جیسے سلیم صافی حالیہ دنوں میں لایا ہے تو پرانے پاکستان میں ”یوں بھی ہوتا تھا یاں بھی ہوتا تھا“ کی دہائی میری رائے میں فکری دیوالیہ پن ہی ہو گا۔

تحریک انصاف کے دوستوں کا پرانے پاکستان میں یہ دعوی تھا کہ وہ اخلاقی طور پر باقی سب سے منفرد اور متقی و پرہیزگار ہیں۔ اور یہ کہ نئے پاکستان میں مغربی اور مدنی طرز حکومت (کبھی مغرب کی مثال دی جاتی ہے تو کبھی مدینہ کی ریاست کا ماڈل پیش کیا جاتا ہے ) اور شفافیت (accountability) کا دور دورہ ہو گا۔ اس لئے ان کا محاسبہ بھی انہی اصولوں اور دعووں پر ہو گا جو انہوں نے خود پیش کیے تھے۔ اسی لئے ہم کہے دیتے ہیں کہ تحریک انصاف کے دوست یا تو نیا پاکستان بنائیں جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا وگرنہ واپس پرانے پاکستان میں اس ملک کو لے جائیں۔ یوں خلائی گھوڑے نہ بنیں اور نہ ہی اس فاشزم میں مزید اضافہ لائیں جس کا گزشتہ ہفتے عملی مظاہرہ ہم نے نئے پاکستان کی اس حکومت کا دیکھا۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan