’’ٹھنڈی کرکے کھاؤ‘‘


عمران خان صاحب اور ان کے مداحین کو یہ سمجھنے میں بہت دیر لگے گی کہ انہیں ’’تبدیلی‘‘ یا انقلاب موجودہ نظام میں رہتے ہوئے لانا ہے۔ یہ نظام پارلیمانی کہلاتا ہے۔ یہاں منصف مزاج بادشاہ احکامات نہیں دیتے۔ قوانین متعارف کرواتے ہیں۔

ان قوانین کو انگریزدور کے متعارف کردہ نوکر شاہی کے نظام کے ذریعے منتخب ومقرر ہوئے افسروں کے ذریعے لاگو کیا جاتا ہے۔ حکومت پارلیمان اور نوکر شاہی کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھنے کو گزشتہ دس برسوں سے ہماری عدلیہ بھی بہت متحرک ہوچکی ہے۔

اس کے علاوہ میڈیا بھی ہے جو Ratingsکے حصول کو یقینی بنانے کے فقط ’’عوام کے ووٹوں سے‘‘ اقتدار میں آئے سیاست دانوں کی بھداُڑانے پر مجبور ہے۔’’تبدیلی‘‘ لانے کے لئے ان سب کو ساتھ لے کر چلنا بہت ضروری ہے۔

وگرنہ…عمران خان صاحب کو 25جولائی 2018کے انتخابات کے ذریعے ہر صورت اقتدار میں آنے کے لئے بالآخر Electablesسے رجوع کرنا پڑا تھا۔

ہماری ’’دریں ریاست‘‘ کے چند لوگ بھی ان کی ’’معاونت‘ ‘ کا الزام سہنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے باوجود قومی اسمبلی کے فلور پر انتخابی عمل کے ذریعے وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب کو “Prime Minister Select”کا طعنہ سننا پڑا تھا۔

اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد انہیں کابینہ میں ان ا فراد کو شامل کرنا پڑا جو جنرل مشرف کے دور سے ریاستی فیصلہ سازی کے عمل میں کئی حکومتوں کے شریک کار رہے تھے۔

ایم کیو ایم جیسی جماعت کو دو اہم وزارتیں دینا پڑیں۔ شیخ رشید کو وزیر ریلوے بنانا ضروری ہوا۔ ان سب مجبوریوں کے باوجود حقیقت یہ رہی کہ قومی اسمبلی میں خاں صاحب کی اکثریت بہت کمزور ہے۔سینٹ میں ان کی جماعت اور اس کے حامی کسی قانون کو اپنی عددی محدودات کے سبب اپنے تئیں منظور نہیں کرواسکتے۔

2018کے مقابلے میں نواز شریف صاحب کو 1997میں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ عطا ہوا تھا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر صرف 18لوگ بیٹھے نظر آتے تھے۔

اس ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ کے بل بوتے پر وزیر اعظم نے فیصل ا ٓباد کے ایک دورے میں چند افسروں کو ہتھکڑی لگانے کا حکم دیا تو بات بن نہیں پائی تھی۔ اس کے بعد سپریم کورٹ اور اس وقت کے صدر سردارفاروق لغاری سے پھڈا ہوا اور بالآخر آرمی چیف جنرل کرامت کا استعفیٰ۔

اس کے بعد ’’اپنی مرضی‘‘ کا آرمی چیف لانے کے باوجود کارگل کو روک نہ پائے۔ ان کی جانب سے ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ بھی 12اکتوبر1999کو ان کے کام نہیں آیا۔ ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو کو بھی 5جولائی 1977سے بچا نہیں پایا تھا۔

’’نظام کہنہ‘‘ میں کمزور پارلیمانی اکثریت کے ساتھ حکومت میں آنے کے باوجود مگر عمران خان صاحب ’’تبدیلی‘‘ لانے کے لئے جلد بازی دکھانے کو مجبور ہورہے ہیں۔ وہ گزشتہ 22برسوں سے مستقلاََ ہمارے نوجوانوں کو ’’باریاں لینے والوں‘‘ کے خلاف اُکساتے رہے ہیں۔

نواز شریف اور آصف علی زرداری کو انہوں نے کرپشن کی علامتیں ٹھہرایا۔ پانامہ کی بدولت نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروانے کا کریڈٹ سمیٹا۔ اب ان کے ہاتھوں قوم کی دولت لوٹنے والے دوسرے افراد کی گرفتاریوں اور کڑے احتساب کا انتظار ہورہا ہے۔

شاید اسی مجبوری کی بناء پر وہ احتساب بیورو کے چیئرمین کو بدھ کے دن اپنے دفتر مدعو کرنے پر مجبور ہوئے۔ چیئرمین نیب کے کام کو سراہا اور انہیں ہر طرح کا تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

ایسا کرتے ہوئے لیکن وہ اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ آئینی اعتبار سے چیئرمین ان کے ماتحت نہیں خودمختار ہیں۔ ان کا تقرر قومی اسمبلی کے قائد ایوان اور قائدِ حزب اختلاف کے باہمی اتفاق ہی سے ممکن ہے۔ اس حوالے سے یہ ’’خودمختار‘‘ ادارہ فقط پارلیمان کو جوابدہ ہے کسی حکومت کو نہیں۔
ماتحتی اور خودمختاری کے درمیانی فرق کو نیب کے سربراہ بھی جو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں سمجھ نہیں پائے۔ اس فرق کو ذہن میں رکھتے تو مذکورہ ملاقات سے اجتناب برت سکتے تھے۔ بدھ کی ملاقات کے ذریعے لیکن انہوں نے اس تاثر کے فروغ کی بنیاد ڈال دی ہے کہ نیب کا ادارہ حکومتِ وقت کے مخالفین کو قابو میں رکھنے کے لئے وہی رویہ اختیار کرے گا جو سیف الرحمن نے نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں اپنایا تھا۔ جنرل مشرف نے اسی ادارے کی مہربانیوں سے نون میں سے قاف والی مسلم لیگ نکالی تھی۔ پیپلز پارٹی میں سے ’’محبانِ وطن‘‘ دریافت کئے۔ ظفر اللہ جمالی کو ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم بنوایا۔ چودھری شجاعت حسین کو چند ہفتوں تک وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھایا تاکہ وہ شوکت عزیزکے قومی اسمبلی کا رکن بن جانے کے بعد یہ عہدہ سنبھال سکیں۔
عمران خان صاحب کے تبدیلی کو بے چین مداحین نیب چیئرمین کی وزیر اعظم سے بدھ کے روز ہوئی ملاقات کے بارے میں میرے بیان کردہ خیالات کو ’’فرسودہ‘‘ ٹھہرائیں گے۔ بہت جذباتی افراد یہ طے بھی کرلیں گے کہ ’’لفافوں‘‘ کا عادی ہوا میرا ذہن ایسی باتوں کے ذریعے تبدیلی‘‘ کو روکنے کی کوشش کررہا ہے۔ اپنے کرپٹ سرپرستوں کو کڑے احتساب سے بچانے کا بندوبست۔ ’’تبدیلی‘‘ مگر آکر رہے گی۔ قانونی موشگافیاں اور ’’باریک لفظوں‘‘ کے ذریعے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی تمام کوششیں ناکام رہیں گی۔ جو بھی رستے میں آئے گا کٹ جائے گا۔ فیاض الحسن چوہان جیسے پاسبانِ انقلاب کے غضب کی آگ میں بھسم ہوجائے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ’’عوامی انقلاب‘‘ سے نواز شریف کے ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ تک بطور رپورٹر چند حقائق کو بہت قریب سے مگر دیکھا ہے۔ اپنے ذہن میں جمع ہوئے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’’ٹھنڈی کرکے کھائو‘‘ والا مشورہ دینا میرا فرض تھا جو میں نے پورا کردیاہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).