مکالمے کے منتظر ہیں


زمین و آسمان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی کائنات، اس کائنات کے اجزائے ترکیبی، اجزائے ترکیبی کا ایک ایک ذرہ، ان ذروں میں دوڑتی زندگی۔ اس زندگی کے وسیع تر سائے میں عالم موجودات میں سب سے افضل و برتر اگر کوئی ذات ہے تو وہ رحمہ اللعالمین کی ذات ہے۔

ہم کیا کہیں اس ذات والی صفات کے بارے میں جو ذات باری تعالی کے ستودہ ہیں۔ ایک محدود زبان، محدود سوچ، محدود ذہن اور صلاحیتیوں سے عاری دماغ کیا کہے گا؛ اس لامحدود ذات کے لیے۔ دنیا میں کھربوں انسانوں نے جس کی مدحت سے اپنی زبانیں تر کیں، مگر مدح کی رعنائی اب بھی ماند نہیں پڑی۔ اس ذات عالی صفات کی حیات مبارکہ سے علم، اخلاقیات اور انسانیت کے نمونے اخذ کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دین متین کی خدائی تعلیمات جو زبان مبارک سے ہم تک پہنچی ہیں یا آپ کی براہ راست تعلیمات جو ہم تک پہنچی ہیں اس کی تو ہزاروں کتابیں وجود میں آ چکی ہیں۔ اسوۂ مبارکہ اپنی پوری تابانیاں لے کر زندگی کے ہر گوشے کو منور کررہا ہے۔ اب تک زندگی کے ہر شعبے کا ہر گوشہ دین متین کی رہنمائیوں سے معمور ہو چکا ہے۔ مگر علم، اخلاق اور انسانیت کے اس بلند معیار ذات کو دیکھیے کہ آج بھی جب ایک محقق صاحب دانش قلم اٹھاتا ہے، تو اسوہ مبارکہ میں سے ہزار ہا نئے پہلو بر آمد کر لیتا ہے۔

سنا ہے جدید دنیا لفظ ”انسانیت” کو خدا مانتی ہے۔ اٹھا لیجیے انسانیت کا کوئی پیمانہ، کوئی آلہ پیمائش، کوئی ماپ واپ کا ذریعہ۔ آپ طے کریں معیار ہم دردی۔ اس کے بعد ہم سے مت پوچھیے آپ خود ہی اسوہ مبارکہ اٹھائیے۔ رحم، انسانیت، شفقت کسی بھی معیار پر اسے دیکھ پرکھ لیجیے۔ و اللہ صد بار و اللہ! یہ مبارک زندگی ہر قسم کے معیار سے اونچی نظر آئے گی۔ تمھارے دماغ کے طے کردہ اصولوں سے یہ زندگی بالا بہت بالا نظر آئے گی۔ ایک روشن بلند منار جو چند پونے انچے دیواروں کے بیچ میں کھڑی ہو۔

پھر ایک بات مگر یاد رہے! اس مینار کی روشنی کو دیکھنے کے لیے نظر و بصارت پر حائل پردے ہٹانے کی ضرورت ہو گی۔ تعصب، تنگ نظری اور عداوت کے پردے۔ یہی پردے تو تھے جس نے ابو جہل ایسے دولت کدۂ نبوت کے پڑوسی کو بھی اس نور کی خوشہ چینی سے محروم رکھا، مگر مآبہ کو ایران، ترکستان، قبرص اور شام سے کھینچ کر یثرب لایا۔ایران کے مآبہ نے مدینہ طیبہ کے سیدنا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ بننے تک کا سفر کن مشکلات کے ساتھ کیا؟ کون سا نور بصیرت انھیں عطا ہوا تھا، جو اس نور کی تلاش میں انھیں کھینچ کر لاتا رہا؟ وہی نور نظر مل جائے تو اس منارۂ نور کو دیکھنا نصیب ہو سکتا ہے۔

اہل مغرب بس ایک ہی بات کا تکرار کیے جارہے ہیں، ”اظہار رائے کی آزادی”۔ مسلمانوں کو یہ بات تو سمجھ لینی چاہیے کہ مغرب اپنی عسکری طاقت کے بل ہی پر اپنی اصطلاحات متعارف کراتا ہے۔ مغرب اسی زعمِ قوت کے ساتھ ہی بات کرتا ہے کہ مکالمہ ہو گا، تو میری شرائط اور معیارات اور میری تشریحات کی بنیاد ہی پر ہو گا۔ میں ہی طے کروں گا کہ اظہار رائے کس کا نام ہے۔ میں ہی بتاوں گا کہ آزادئ فکر کا مطلب کیا ہے۔ ٹھیک ہے بے بہا طاقت اور عروج کا دبدبہ اور نخوت آپ کو مبارک۔ اگر طاقت ہی معیار اور اختیار ہے تو پھر آپ کے یہ خوش کن نعرے ”جمہوریت، احترام اور برداشت” آپ ہی بقلم خود کالعدم کر دیں۔

اگر ایسا کچھ نہیں ہے جیسا کہ آپ کے چہرے کا ظاہری بناو سنگھار بتاتا ہے، تو پھر کچھ معیارات آپ بھی تو واضح کریں مکالمہ کے۔ آپ معیار تو بتائیں اظہار رائے کی آزادی کے۔ آپ دنیا میں کسی بھی ذات جگہ یا مقام کے بارے میں احترام کے قائل ہیں یا دریدہ دہنی و گالم گلوچ و تضحیک ہی آزادئ فکر کا معیار ہے۔ دہن بگاڑ بگاڑ کے جو آپ کسی کو رگیدیں گے تو یہی آپ کے یہاں آزادی ہے؟ آپ کے شور و غوغائے آزادی میں ایک اس سوال کی وضاحت بھی مطلوب ہے؟

اور اگر معروف و مروج سماجی ماحول ہی میں مکالمہ کرنا ہے، تو پھر ایک سادہ سا اصول ہے۔ ہم اپنے ارد گرد کسی بھی جگہ، چیز یا شخص کے متعلق بات کرتے ہیں تو بات کرتے ہوئے ہمارے الفاظ کا انتخاب کیا ہوتا ہے؟ ہمارا لہجہ کیا ہوتا ہے؟ ایک معتدل دماغ والے شخص کا لہجہ کیا ہوتا ہے، کسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے؟ اپنے والدین کے بارے میں، اپنے سینئر یا باس کے بارے میں، کسی لیڈر یا سربراہ مملکت کے بارے میں؟ ان تمام لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمارا لہجہ کیا ہونا چاہیے؟ ہمارا عام اور معتدل سماجی رویہ کیا ہوتا ہے ایسے مواقع پر، ایسی مجالس میں؟
آپ اگر طاقت سے ہٹ کر مکالمے کے قائل ہیں، تو مکالمے کے لیے ہماری پہلی گزارش یہ ہے کہ پوری آزادی و فرحت طبع کے ساتھ اسوہ حسنہ کا مطالعہ کیجیے۔ اس کی خوب صورتیوں پر نظر کیجیے؛ اس کے بعد آئیے سامنے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ اور دوسری گزارش اتنی سی ہے کہ جتنا احتراما لہجہ آپ کا اپنے بڑوں کے متعلق ہوتا ہے اتنا ہی اختیار کیجیے۔ آپ بے شک دل سے احترام نہ کریں مگر جتنا میں آپ کے احترام میں آپ کے بڑوں کا نام لیتا ہوں تو آپ بھی میرے احترام میں میرا خیال رکھتے ہوئے اپنا لہجہ مدھم اور الفاظ خوب صورت رکھیں۔

ایک نظر مگر صورت احوال کو دیکھیے۔ مکالمے کا دروازہ کھلا ہے۔ آپ اپنا تیر و کمان زرہ و بکتر اتار کر تعصب کے چٹان سے نیچے اتر آئیں۔ اپنے لہجے کی کرختی کم کریں۔ ٹھنڈا پانی پی کر ریلیکس ہوں، پوری نشاط طبع کے ساتھ بات کریں۔ یہاں تو مگر تعصب و تنگ نظری اپنی انتہا پر نظر آتی ہے۔ فلم، خاکے اور پھر مقابلے۔ یہ تسلسل کب رُکے گا؟ آپ اپنے خوب صورت الفاظ، مکالمے کے حدود میں کب لائیں گے اور کب بیٹھ کر بات کرنے کا ہنر سیکھیں گے؟ ہم منتظر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).