تابع فرمان فوج، محکوم نیب: عمران خان کامیاب ہیں


وزیر اعظم عمران خان کا یہ تقاضا جائز ہے کہ ان کی حکومت کو کام کرنے کے لئے کم از کم تین ماہ کا وقت دیا جائے تاکہ وہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے بنیادی ڈھانچہ واضح کرسکے۔  کسی بھی نئی حکومت کو معاملات سمجھنے اور تبدیلی لانے کے لئے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں تو پاکستان جیسے مسائل میں گھرے ملک میں کسی قابل ذکر تبدیلی کے لئے پانچ سال کی مدت بھی کافی نہیں ہو سکتی لیکن نئی حکومت کے طریقہ کار اور اہداف متعین ہونے میں چھ ماہ سے ایک سال کا وقت تو درکار ہوگا۔ اس لئے جب منتخب وزیر اعظم میڈیا سے تین ماہ کا وقت مانگتے ہیں تو ان کا ’مطالبہ‘ غلط نہیں لگتا۔ البتہ یہ بات کہتے ہوئے عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں میڈیا سے تین ماہ تک خاموش رہنے اور حکومت پر تنقید سے گریز کا ہی مطالبہ نہیں کیا بلکہ ان کی اصل خواہش یہ تھی کہ ملک کا میڈیا حکومت کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے تحریک انصاف کےسیاسی مخالفین کی کردار کشی کا حصہ بنا رہے۔ یہ مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے احتساب کا ذکر کیا اور انرجی سیکٹر میں گردشی قرضوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تاثر مضبوط کرنے کی کوشش کی کہ ملک کو اس وقت جس بدحالی کا سامنا ہے وہ سابقہ حکمرانوں کی نااہلی نہیں بلکہ مالی بدعنوانی کا شاخسانہ ہے۔

عمران خان سیاست دانوں کی بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے ملک کے بااختیار حکمران کی بجائے بدستور اپوزیشن لیڈر کا لب و لہجہ اختیار کررہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ پانچ برس کے دوران حقائق کو ایک بھیانک صورت میں عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اب ملک کا حکمران بننے کے بعد ان سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ معاملات کو اسی تیزی سے درست کرتے ہوئے بیروزگاری کو ختم ، تعلیم کو عام ، صحت کو لازمی اور انصاف تک سب کی رسائی کو ممکن بنائیں گے۔ اس مقصد کے لئے عمران خان کو ماضی میں کئے گئے بعض دعوؤں کو غلط تسلیم کرنا پڑے گا، نعروں کی بجائے ٹھوس معلومات پر مبنی پالیسیاں بنانا پڑیں گی اور دشمنی کی بات کرنے کی بجائے مفاہمت اور مل جل کر چلنے کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ لیکن جمہوری طریقہ سے منتخب ہونے کے باوجود عمران خان بدقسمتی سے بنیادی جمہوری رویہ کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں نوزائیدہ حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔

عمران خان اگر حالات کا بغور مطالعہ کرسکیں تو وہ یہ جان سکیں گے کہ میڈیا کی طرف سے حکومت کو تنقید سے زیادہ حوصلہ افزائی ملی ہے۔ کالم نگار اور ٹی وی اینکر نئی حکومت سے توقعات وابستہ کرتے ہوئے عوام کو ’نئے پاکستان‘ کی سنہری تصویر دکھا کر خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے کالم نگار بھی موجود ہیں جنہوں نے عمران خان کو قائد اعظم ثانی قرار دیا ہے اور قوم کے نام ان کے خطاب کو قائد اعظم کی تقریروں کے بعد سب سے زیادہ سچا اور قومی درد سے لبریز بتایا ہے۔ اس ماحول میں وزیر اعظم کے پاس میڈیا سے کوئی شکایت کرنے کا جواز موجود نہیں ہے۔ ان کی حکومت کی مختلف حرکتوں پر سب سے زیادہ تنقید تحریک انصاف کے ان جیالے کارکنوں اور سوشل میڈیا ’توپ برداروں‘ کی طرف سے دیکھنے کو ملی ہے جو جھوٹے سچے خوابوں کی تلاش میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں عمران خان کی صورت میں انسان کی بجائے کوئی غیر مرئی قوت دکھائی دیتی ہے جو ’کھل جا سم سم ‘ کہہ کر سارے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

موجودہ حکومت کو گزشتہ چند روز کے دوران جن معاملات پر خود اپنے ہی ہمدردوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس تک آنے جانے کے لئے ہیلی کاپٹر کا بے دریغ استعمال اور ان کی اہلیہ کے سابق شوہر کے ساتھ تنازعہ پر پاک پتن کے پولیس افسروں کااچانک تبادلہ شامل ہیں۔ عمران خان نے آج اسلام آباد ہی کے وزیر اعظم ہاؤس میں صحافیوں اور اینکرز کے ایک گروپ سے باتیں کرتے ہوئے ان دونوں معاملات پر بات کی ہے۔ لیکن کسی معاملہ میں بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ ٹھیک راستے پر ہیں۔ وزیر اعظم کو خبر ہونی چاہئے کہ صرف وہی شخص اپنی اصلاح کرنے اور عملی نتائج دکھانے میں ناکام رہتا ہے جو اپنی چھوٹی موٹی غلطی کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ عمران خان اگر خود کو سپر ہیومن اور اپنے دشمنوں کو شیطان کا پرتو بتانے کا رویہ اپنائے رکھیں گے تو ان کے چاہنے والے ان سے ناممکنات کو ممکن بنانے کا تقاضہ بھی کرتے رہیں گے۔

ستم ظریفی ہے کہ عمران خان نے آج صحافیوں سے اسی وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کی تھی جس کو وہ متعدد بار استعمال کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔ منتخب ہونے کے بعد ان کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس جیسے عالی شان مکان میں رہنے کا تصوربھی نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد قوم کے نام خطاب میں انہوں نے سابقہ حکمرانوں کی بے دردی اور عیاشی کا درد ناک قصہ سنانے کے لئے بتایا کہ ان کے ملازمین کی تعداد 500 سے زائد تھی لیکن وہ خود صرف دو ملازمین رکھیں گے اور اپنے ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ میں رہیں گے۔ کیوں کہ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے وہ بنی گالہ میں نہیں رہ سکتے۔ یوں تو بنی گالہ کا مکان بھی کسی محل سے کم نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کی باتوں سے ان کے چاہنے والوں اور ’چاہے جانے والوں ‘ کی فہرست میں شامل ہونے کے خواہشمندوں نے ایک درویش منش لیڈر کی پرچھائیں تلاش کرلی جس کا دل قوم کی تکلیفوں سے لبریز ہے اور وہ سرکاری خزانے کا ایک روپیہ بھی ناجائز صرف نہیں کرنا چاہتا۔

ایسے بلند بانگ دعوؤں کے بعد جب عمران خان نے بنی گالہ اور وزیر اعظم ہاؤس کے درمیان سفر کے لئے ہیلی کاپٹر کو گدھا گاڑی کی طرح استعمال کرنا شروع کیا تو آوازیں اٹھنا لازم تھا۔ اس موقع پر عوام کی تکلیف کا حوالہ دیتے ہوئے یا وزیر اعظم کی نقل و حرکت کے حوالے سے ضروری سیکورٹی اور پروٹوکول کا ذکر کرتے ہوئے بات ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ ان کے ہونہار وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے گوگل سرچ کے ذریعے یہ ’تحقیق‘ عوام کے سامنے پیش کی کہ یہ سفر سستا اور آسان ہے ، اسی لئے عوامی وزیراعظم کار کی بجائے ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں۔ فواد چوہدری کی تحقیق کے مطابق اس سفر پر پچپن روپے فی کلو میٹر صرف ہوتے ہیں۔ اس مضحکہ خیز بیان کے بعد آج عمران خان نے عوام کو دقت سے بچانے کے لئے ہیلی کاپٹر کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔ لیکن خبروں کے مطابق وزیر اعظم اگرچہ ہیلی کاپٹرمیں سفر کرتے ہیں لیکن ان کی نقل و حرکت کے وقت سڑکوں پر ’روٹ‘ لگانے کا پروٹوکول ختم نہیں کیا گیا۔

اس قسم کے ڈھکوسلے اور عذر خواہیوں سے اب عوام ، میڈیا یا تحریک انصاف کے ان ہمدردوں کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا جو عمران خان کی صورت میں مدینہ کی ریاست کا ظہور اور خلفائے راشدین کا دور واپس آتادیکھ رہے ہیں۔ اپنی سادگی و بچت اور دوسروں کی فضول خرچی کے قصے سنا نے کے بعد ہیلی کاپٹر کا روزانہ مواصلت کے لئے استعمال اور وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہنے کا اعلان کرکے اس عمارت کو مستقل اپنے استعمال میں رکھ کر عوام کو کس طرح بتایا جاسکتا ہے کہ 2018 میں حکمرانوں کی مجبوریاں اور کام کا طریقہ کار مختلف ہو گا۔ اسے قبول کئے بغیر موجودہ دور کی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں۔ تاہم شعوری طور پر اس نتیجہ تک پہنچنے کے لئے عمران خان اور ان کی کابینہ کے ہونہاروں کو اپنے دل کے اندر جھانکنے، دماغ کے دروازے کھولنے اور خوابوں کے نگر سے حقائق کی دنیا میں قدم رنجہ فرمانا ہوگا۔ ورنہ ان کی باتیں بے مقصد اور دلائل بے وزن رہیں گے۔

حکومت کے اسی مزاج کا شاخسانہ ہے کہ ایک طرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ خاتون اول کے سابقہ شوہر کی ’توہین ‘ پر پولیس افسروں کو طلب کرتے ہیں اور عمران خان ان کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی غیر حقیقت پسندانہ رویہ کی وجہ سے وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات ہالینڈ کے وائیلڈرز گیرٹ کی طرف سے رسول پاک ﷺ کے کارٹونوں کا مقابلہ منسوخ کرنے کے اعلان کو حکومتی سفارت کاری کی فتح قرار دینے پر مصر ہیں۔ یہ رویہ عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کی حدیں اب فوج کی تابعداری اور نیب کی نگرانی سے ملائی جارہی ہیں۔ وزیر اطلاعات یہ اعلان کررہے ہیں کہ گزشتہ روز عمران خان نے جب جی ایچ کیو کا دورہ کیا تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ یقین دلایا کہ فوج حکومت کی پالیسی کے مطابق اس کی رہنمائی میں کام کرے گی۔ یہ اعلان کرنے سے پہلے حکومت کے ترجمان کو یہ بھی تسلیم کرلینا چاہئے تھا کہ اس سے پہلے فوج ایسی یقین دہانی نہیں کرواتی تھی ، اب عمران خان کی معجزاتی قیادت کی وجہ سے یہ ممکن ہؤا ہے۔ یہ تسلیم کرلیا جائے تو عمران خان کی نگرانی میں حکومت کو سیاست دانوں کے احتساب سے پہلے سابق عسکری آمروں کی آئین شکنی اور مالی دراز دستی کا حساب مانگنا پڑے گا۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو احتساب ایک کھوکھلا اور جذباتی نعرہ بن کر رہ جاتا ہے جسے وزیر اعظم اور حکومت جتنی جلد ترک کردے ملک و قوم کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔

قانون کی پاسداری اور اداروں کو استحکام دینے کا دعویٰ کرنے والی حکومت کے سربراہ جب نیب کے چئیر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ملتے ہیں اور وہ بھی سر کے بل وزیر اعظم ہاؤس میں حاضر ہوتے ہیں اور ان سے سیاست دانوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا تقاضہ کیا جاتا ہے تو شفافیت اور ادارہ جاتی خود مختاری کا دعویٰ سیاسی انتقام کا اعلان نامہ بن جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ اقدام پاک پتن کے پولیس افسروں کے تبادلہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے کردار ہی کی طرح مذموم ہے۔ اب عمران خان میڈیا کو بتا رہے ہیں کہ جب سیاست دانوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو وہ شور مچائیں گے لیکن آپ نے حکومت پر تنقید نہیں کرنی۔ گویا ایک ہی فقرے میں احتساب کو سیاسی ایجنڈا بناکر میڈیا کے لئے حدود مقرر کرنے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے اس طرز عمل پر بات کرنے کے لئے تو تین ماہ نہیں ، تین دن بھی انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سیاسی ایجنڈا غیر جمہوری اور عالمگیر اصول قانون سے متصادم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali