خود سے بچھڑے ہو ئے کردار


(“اکیلے لوگوں کاہجوم ” —-ایک طائرانہ جائزہ)

“اکیلے لوگوں کا ہجوم “ساحر شفیق کا ذہنی اور روحانی سفر ہے جو اس نے اپنی ذات کے اندرون میں طے کیا ہے اور اپنی ذات کے باہر بھی۔ بلا شبہ یہ جدید اُردو افسانے کا نیا چہرہ ہے جس کے کلیدی موضوعات عصرِحاضر کے انسان کی تنہائی ، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اورشناخت کا گم ہونا ، ہیں۔

ساحر نے خود کو مختلف سانچوں میں رکھ کر پینٹ کیا ہے اور اپنی ذات کی ساری بوجھلتا، سگریٹ اور کافور کی بُو میں لپیٹ کرہمارے چہروں پہ لیپ دی ہے۔ یہ رنگوں کی پچکاری نہیں ،دھواں ہے …… اور دُھواں بھی ایسا کسیلا اور بدبودار کہ ساحر کے ساتھ ساتھ ہم بھی اِس کی جکڑن میں پھنسے، کھانس رہے ہیں ۔

ساحر کا بنیادی نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم ایک ایسی منحوس اور یبوست زدہ دنیا کے باسی ہیں جہاں انسان محض ایک کمرشل پروڈکٹ ہے جسے اس کے کپڑوں اور جوتوں پر لگے پرائس ٹیگوں سے شناخت کیا جاتا ہے ؛ وہ سمجھتا ہے کہ اِس کموڈی فکیشن کے عمل نے سب سے زیادہ عورت کی نفسیات کو متاثر کیا ہے تاہم اُس کے کردار کیپیٹل ازم کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے عورت کواپنی بربادی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ ساحر کے افسانوں میں شوپنہاری روایت کا والہانہ اتباع کیا گیا ہے لہذا اُسے میل شاؤنسٹ قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ۔

اِس میل شاؤنزم کا واضح ثبوت اس کے مردانہ کرداروں میں بھی ملتا ہے (جو دراصل ساحر ہی کا پھیلاؤہیں)اور “خبیث کے آنسو”،”مجھے افسوس ہے ہالبروک”اور”وہ آدمی جو بہت سوچتا تھا”جیسے افسانوں کے مرکزی کردار یہی امر منعکس کرتے ہیں…… “مجنوں کی ڈائری کا آخری ورق”بالآخر وہ ہذیان ہے جو ایک آئیڈیل اور مکمل عورت کی یکسر عدم موجودگی کا اعلامیہ بن جاتا ہے اور ساحر ایک طیش کے عالم میں انسان کی اجتماعی موت کا اعلان کر دیتا ہے۔

ساحر کے اکثر کردار بظاہر مغربی معاشروں کے افراد ہیں۔تھوڑی گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو ساحر مخصوص طرزکی بدیسی فضا تشکیل کر کے دو فوائد حاصل کرتا ہے : ایک تو یہ کہ وہ افسانے کے ماحول کو مانوس سے غیر مانوس کی طرف لے جاتا ہے جس کے ذریعے وہ قاری کے ذہن میں ایک نقطۂ حیرت اُبھارتا ہے اور دوسرے وہ اس گلوبل ویلج اور ثقافتی تسلط کی نشاندہی بھی کرتا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے بھیانک اور مہیب پنجوں میں جکڑ کر ایک ہی جتنا بدصورت ،گھناؤنا اور ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے۔

بالعموم ساحر کے کردار انفرادیت پسند ، قنوطی اور بیزاری سے لبریز ہوتے ہیں تاہم وہ اپنی قنوطیت اور بیزاری کی صحیح وجہ بوجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔خود آگہی کی عدم موجودگی بالآخر اِن کرداروں کے غم و غصے کو اِ س حد تک بڑھا دیتی ہے کہ وہ مایوسی یا طیش کے عالم میں خود کشی کا ارتکاب کر لیتے ہیں ۔

یہ خودکشی ، ایک تحت الشعوری سطح پر عالمگیر سرمایہ دارانہ نظام کی مروجہ اخلاقیات سے بغاوت اور اسکے ضابطوں کا انکار ہے، جو بھلے انفرادی لوکیل پر ہی سہی ، مگر اِن کرداروں کو مزاحمت کا ایک نیا استعارہ بنا دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).