داستان خمیر فروشوں کی


جب بھی پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانے کی بات ہوتی ہے تو ہمیں بے اختیار وہ دُکھی مائیں یاد آتی ہیں جو اگر اپنے زندہ بیٹے سے مایوس ہوجائیں تو اُس غنچے کو یاد کرکے روتی ہیں جو بن کھلے مرجھا گیا تھا۔ اگر وہ ہوتا ہے تو اُسے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ وہ ہوتا تو یہ کردیتا، وہ ہوتا تو وہ کردیتا۔ وہ اس نکھٹو سے اچھا نکلتا جس نے ہماری لٹیا ڈبو دی۔ پاکستان میں مدینے کی ریاست کی بات کرنے والوں اور نکھٹو بیٹوں کی ماؤں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ ناکام بیٹوں کی مائیں دُوسروں کے زندہ اور کامیاب بیٹوں پر تو رشک کرسکتی ہیں لیکن مرا ہو ا بچہ انہیں صرف اپنا ہی اچھا لگتا ہے۔

ثانی الذکر واقعہ دُکھی ماؤں کے علاوہ تہاذیب و اقوام کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے اگرچہ ماؤں کے برعکس تہاذیب کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ اگر وہ زندہ رہیں تو نہ صرف اپنا مرا ہوا بیٹا دوبارہ زندہ کرلیتی ہیں بلکہ اس کا ماضی بھی از سرِ نو تراش کر یہ ثابت کرلیتی ہیں کہ جیسے ہم آج ہیں ویسے ہی صدیوں پہلے تھے۔ ہمارا خمیر ہی عقل پسندی، فنون پروری اور سائنسی فکر سے اٹھا تھا ہاں مگر بیچ راستے میں ہم تھوڑا بھول بھٹک گئے تو کیا ہوا۔

جب مغرب نے کلیسا کی تاریک حکمرانی سے نکلنا چاہا تو اس نے نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے دوران نہ صرف اپنا یونانی بچہ دوبارہ زندہ کرلیا بلکہ اُسے عقل پسند بھی ثابت کردیا وگرنہ یونان کے عقل پسندی کے علاوہ کچھ اور بھی شیڈز تھے۔ ہمارے مشتاق یوسفی نے آبِ گم میں کہیں لکھا تھا کہ کمزور لوگ اپنا ماضی خود گھڑ لیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کمزور اور ناکام لوگوں کے گھڑے ہوئے ماضی پر بھی کوئی یقین نہیں کرتا۔ اس کے برعکس جب طاقتور تہاذیب اور اقوام اپنا ماضی گھڑتی ہیں تو سب اس پر ایمان لے آتے ہیں۔

بات مغرب کے مرے ہوئے بچے۔ یونان کی ہورہی تھی اور ہم جانتے ہیں کہ یہ بچہ چونکہ مغرب کا اپنا تھا اس لئے مغربی لوگوں کی کی ایک بڑی تعداد نے اسے نہایت فخر سے گلے لگایا۔ اقوام کے ضمن میں ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں اور ہم پاکستانیوں کا ان سب مثالوں پر غور کرنا ضروری ہے کیونکہ ہماری شناخت کا لے پالک عرب بچہ بھی نکھٹو ثابت ہوا ہے۔ دنیا ہل رہی ہے، بدل رہی ہے، آگے بڑھ رہی ہے لیکن ہمارا بچہ ہے کہ ہنوز جنبش سے محروم اور کوہ قاف کی طرح استوار ہے۔ اگر حرکت کرنا بھی چاہتا ہے تو پیچھے۔ یہ قرون وسطیٰ کی کلیسائی طرز کی تاریکیوں میں واپس جانے کی ضد کرتا ہے۔ یوں دنیا اگر اکیسویں صدی سے گزر رہی ہے تو یہ کئی صدیاں پیچھے اندھیروں کے سمندر میں غوطے کھارہا ہے۔

اس بچے کی حالت دیکھ کر بھی یہ کیسی حماقت ہے کہ ہم جو بچہ زندہ بھی کرنا چاہتے ہیں وہ نہ صرف پرایا ہے بلکہ ہیجڑوں کے ہاں پیدا ہونے والے افسانوی بیٹے جیسا ہے جو بوس و کنار کی کثرت سے جانے کب کا ہلاک ہوچکا ہے۔

ایسا ہی بیٹا زندہ کرنے کی کوشش چند ماہ قبل قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ طبیعات کا نام تجویز کرتے ہوئے کی گئی ہے۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ چند ہفتے پہلے خبرآئی کہ ڈاکٹر عبدالسلام سنٹر کا نام بدل کر اس کا نام ابو فتح الخزینی سنٹر رکھ دیا گیا ہے اور بعد ازاں روزنامہ ڈان نے اس خبر کی تردید میں لکھا کہ عبدالسلام سینٹر کا نام تبدیل نہیں کیا گیا اور یہ دو مختلف ادارے ہیں مگر طبیعات کے شعبے کا نام ابو فتح الخزینی رکھا جانا متوقع ہے۔

نام سنتے ہی خزینی کی تلاش ایسے شروع ہوئی جیسے بی کلاس جاسوسی ناولز میں مدفون خزانہ تلاش کیا جاتا ہے۔ چونکہ بچہ بہت حد تک غیر معروف تھا اس لئے کچھ اہلِ نظر نے خیال ظاہر کیا کہ شناخت گم کردہ یتیم الباکستانیوں نے خزینی کے نام کے ساتھ ’ابو‘ دیکھ کر اُسے اپنا گم شدہ باپ مان لیا ہے۔ خزینی تو پھر بھی گمنام سائنس دان ہیں باپ کے پیار کو ترسے محب وطن الباکستانی تو ابو مصعب زرقاوی، ابو الفراج اور ابو زبیدہ جیسے لوگوں کو ابو قرار دے چکے ہیں جنہیں دنیا، خاکم بدہن، دہشت گرد کہتی ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کسی نے یہ تک کہہ دیا کہ دنیا بچے پالتی ہے اور الباکستانی باپ۔

بہت سے لوگ قوم کے اس نئے ابو کی شناخت میں ناکام رہے تاہم ہمارے دوست معروف صحافی مجاہد مرزا نے ہمت سے کام لیا اور تاریخ کے کرم خوردہ اوراق سے ان کا کھوج لگا ہی لیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق فرقہ معتزلہ سے ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مقامی مادرہائے علمی کے نزدیک معتزلہ وہ مردہ بچہ ہے جو اگر زندہ رہتا تو وارے نیارے ہوجاتے۔

ہماری ان دُکھی ماؤں کو یہ غلط فہمی تو لاحق ہے مگر ان دکھیاریوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اگر معتزلہ کی موت نہ ہوتی اور وہ علمی و سائنسی کارنامے سر انجام دیتے تو اس سے ہم ہندوستانی الاصل الباکستانیوں کے درجات کیسے بلند ہوتے؟ جیسے عربوں کی نام نہاد فتوحات کو ہمارے خائن مورخ ہماری فتوحات بتاتے ہیں اور ہم جھوم اٹھتے ہیں؟ ہم عربوں یا عرب نماؤں کے علمی کارناموں پر ایسے رقص کرتے جیسے پرائی برات پر احمق کرتے ہیں؟

اگر معتزلہ کی موت واقع نہ ہوتی تو شاید یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ عرب حملہ آور ہندوستان پر اونٹوں اور گھوڑوں کی بجائے جنگی جہازوں سے حملے کرتے۔ پرائے مرے ہوئے بچے سے نشاۃ ثانیہ کی اُمید لگانے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ صرف ایک خاص طرزِ فکر سے، جس کا موضوع اور سبجیکٹ میٹر مذہب اور مبادی و متروک مابعد الطبیعات ہو، کوئی سائنسی یا فکری انقلاب نہیں لایا جاسکتا ہے۔

المختصر، پاکستانیوں کے خمیر کی راہ میں اگر تعمیر کی کوئی چنگاری موجود ہے تو پرایا بچہ زندہ کرنے کی ضرورت نہیں اپنا بچہ زندہ کریں۔ عرب علمیات بنجر ہوچکی ہے اور اسے عقیدہ پرستی کی خشک سالی کھاگئی ہے۔ ان قوموں سے سبق سیکھیں جو دُکھی ماؤں کی طرح رونے کی بجائے اپنا ہی مردہ بچہ زندہ کرلیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).