زبان کی ٹانگ توڑ ڈالی



تحریر ایسی ہو، جو پڑھنے اور خصوصاً سننے والے پر اپنا اثر چھوڑ دے، الفاظ کا تیکھاپن ہو،یا ٹیڑھے محاوروں کی ترکیب، چلبلی تُک بندی بھی جملوں کو کھٹا میٹھا کر دیتا ہے۔

ایک ادب کی زبان ہوتی ہے۔

ایک عام بول چال

اخبارمیں بھی زبان کا خاص خیال رکھاجاتاہے۔

کسی دور میں ریڈیو پر بڑے سکہ بند اور اہل زبان،سکرپٹ رائٹر ہوں یا صداکار، سننے والوں پر سحر طاری کر دیتے تھے۔

ایسی شستہ اور سلیس اردو بولتے کہ غالب اور میر کے دور جیسے لوٹ آتے۔

ریڈیو، صداکاری اور مکالمہ بازی کیلئے درسگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔

پاکستان ٹیلی ویژن بھی کسی طور پر کم نہ تھا،وہاں بھی اچھے اردو،لکھنے اور بولنے والے آتے۔

زبان کو سیکھنے کی ایک لگن ہوتی تھی،نئے آنے والے سینئرز کی نشستوں میں سے کچھ نہ کچھ لیکر ہی اُٹھتے تھے۔

اخبارات میں بھی اردو کی نوک پلک سنوارنے والے موجود ہوتے تھے،جو کسی جھول کو پکڑ لیتے اور نسبتاً کم غلطیوں والی زبان کے امین ہوتے۔

زمانہ کیا بدلہ،ایسی نام نہاد تیزی آئی،ہر شے فاسٹ کہلانے لگی، کہیں کھانا فاسٹ فوڈ ہوا،تربیتی کورس،فاسٹ ہوئے،گاڑیاں توخیر،پہلے سے تیز رفتار ہوئیں،کھیل کے میدان بھی تیز تر ہوگئے۔

اس فاسٹ لائف نے زندگی میں ہر شے کو تیز تیز کی بنیاد پر ہانکنے کے بجائے “پک اینڈ ڈریگ” کرنا شروع کردیا۔

اب اخبار اور ٹی وی چینلز پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے،ایسا نہیں کہ کوئی زبان سے آشنا نہیں،لیکن ناواقف اتنے زیادہ آچکے ہیں،کہ اصل اور نقل کے بورڈ تک لگ گئے مگر تعین کرنا مشکل ہوگیا۔

لفاظی کی جنگ،ایسی خوفناک چلی کہ کہیں اردو میں انگلش کا مکسچر آیا،تو کہیں الفاظ میں مرضی کی تُک بندی کردی۔

کچھ نہیں سوجھا،تو شاعری کرڈالی،رہی سہی کسر ٹی وی اشتہارات میں پوری ہوگئی،سب سے دلچسپ یہ کہ اسے جائز قرار دیا گیا کیونکہ یہاں لوگوں کو خوش کرنا مقصد ٹھہرایا گیا،جس کے نتیجے میں نہ صرف توجہ حاصل کی جاتی ہے بلکہ کاروبار بھی بڑھتا ہے۔

ٹی وی چینلز کا مزاج بھی مختلف ہے،انہوں نے اسی فاسٹ فاسٹ میں ایسی دوڑ لگا رکھی ہے کہ دیکھنے والا بھی چکرا جاتا ہے،کبھی کبھی تو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ بات کس تناظر میں کی گئی،کسی محاورے کو کس حوالے سے بیان کیا گیا،الفاظ کی ترکیب تبدیل کیوں کی گئی،جملہ توڑکر کیوں لکھا گیا،سب سے بڑھ کر لفظ بولنا،یعنی تلفظ کی بھی پکڑ بہت کم ہے۔

کبھی کسی نے اتنی تکلیف نہیں کی کہ درست زبان بول لی جائے۔

اردو میں انگلش کے الفاظ کو کوئی اردو لہجے میں کوئی باقاعدہ انگلش ایکسنٹ میں بولتا ہے۔

قصہ مختصر اچھی زبان لکھنے اور بولنے والے اگرچہ کم ہوتے جارہے ہیں،وہیں اس کے طلب گاروں کی تعداد بھی محدود ہوتی جارہی ہے،فاسٹ فاسٹ میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ زبان درست کراتا پھرے،یا غلطیوں کی تصحیح میں قیمتی وقت ضائع کرے۔

اسی بھاگ دوڑ نے جہاں معیار کو گرایا،وہیں زبان کی بھی ٹانگ ایسی توڑی کہ اپنے قدموں پر دوبارہ کھڑی ہونے کے قابل بھی نہ چھوڑی۔

اب میرے جیسے بھی قلم پکڑتے ہیں،اردو لکھنا شروع کردیتے ہیں،لکھنے والے زبان کو پاؤں پر کھڑا کرنے والے اب کم ہیں،اس کی ٹانگیں کھینچنے والا،ہر پہلا شخص ہے۔

زبان ہے کہ بے چاری،بیساکھیوں پر چلتی ہے مگر پھر وہی کوئی شاہسوار، ایسی ٹھبی کراتا ہے کہ منہ کے بل گر پڑتی ہے۔

کئی بار اسے مصنوعی ٹانگوں کے سہارے بھی کھڑا کیا گیا،یہ تجربہ کچھ اچھا نہ رہا۔

اب تو بس زبان چیختی چلاتی ہے،مجھے معاف کردو، بھائی مجھے معاف کردو،

تم لوگوں نے باندی بنایا،جیسے چاہا،میرااستعمال کیا،اتنی تو گھرمیں قید عورت کی تذلیل نہ ہوئی،جتنا حشر میرا کر ڈالا۔

سسکتی،بلکتی، آہیں لیتی زبان جان بہ لب ہے۔

ہم اتنے فاسٹ ہیں، اتنا ایڈوانس سوچتے اور کام کرتے ہیں کہ کوئی بعید نہیں،زبان کا جنازہ اُٹھانے اور تدفین کی بھی دل میں تیاری کرچکے ہوں۔

ہائے ری زبان،تیرا کونسا محاورہ درست، تیرے دوست کم، پیاروں کے بھیس میں دشمن سب۔

کاش! تو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے اور اپنے قدموں پر چل کر زمانے کو بتا دے۔

میں ہوں اردو، جسے کبھی ریختہ کہا گیا،جس پر کبھی ایک زمانے کو ناز تھا،

آہ ! ری زبان تجھ کو بھلایا،تو جیسے بھول گئے اپنی پہچان،

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar