احفاظ الرحمٰن کی چند نظمیں


فریبوں کی سپاہ

عکس در عکس اترتی ہے فریبوں کی سپاہ
غُل مچاتی ہوئی پرچھائیاں سینے پہ سوار
حلق کی سمت لپکتی ہوئی قاتل برچھی
جانب قلب جھپٹتی ہے وہ خونیں تلوار
آنکھ کو تاک رہا ہے یہ ستم گر نیزہ
عکس در عکس اُترتی ہے فریبوں کی سپاہ

کھوکھلے سر میں اُبھرتا ہے مسیحائی کا زعم
رقص کرتے ہوئے بہلاووں کا سرسبز چمن
خوش نگاہی کی طلب، کشتہ اُمیدوں کا کفن
بے لباسی پہ لکھی تہمت ارزاں کی سند
چاروں اطراف سے آتی ہے فریبوں کی سپاہ

جو بھی لکھتا ہے یہ نامہ مری رُسوائی کا
ہاتھ میں اس کے فریبوں کے سوا کچھ بھی نہیں

***    ***

ہست و بود کی بازی گری

جہاں اُمید جاتی ہے، دیا اپنا جلاتی ہے
کسی ویران رستے پر
کسی سنسان جنگل میں
گپھاؤں کے اندھیروں میں چمکتی خانقاہوں میں
کسی سر سبز وادی کے طلسماتی مناظر میں
بڑی آبادیوں کے درمیاں پھیلی ہوئی گلیوں میں
بازاروں کی ہلچل میں
خلاکی بے کرانی میں
سمندر کی اُمڈتی ڈوبتی لہروں کے دامن میں
زمیں پر پلنے والے
سیکڑوں قسموں کے لوگوں میں
بڑھاپے میں، جوانی میں
گناہوں

 کے سیہ خانوں میں
تسبیحوں میں، زناّروں میں
مناروں اور صلیبوں میں دھڑکتی، گونجتی
دل کش دعاؤں میں
جہاں اُمید جاتی ہے
دیے اپنے جلاتی ہے
یہ اک لمبی کہانی ہے
کہانی در کہانی ہے
امیدیں جلتی بجھتی ہیں
دیے بھی جلتے بجھتے ہیں
عقیدے جلتے بجھتے ہیں
بکھر کر ٹوٹ جاتے ہیں
’’یہ ہست و بود کے گل زار‘‘ کا رنگیں تماشا
دیکھنے کی چیز ہے پیارے
اسے تم بار ہا دیکھو، مسلسل دیکھتے جاو!!

***      ***

ہونا اور نہ ہونا

 

اگر ایسا نہ ہوتا ․․․․․․ زندگی گل رنگ ہو جاتی
یہ صحرا سبزہ بن جاتا
یہ خالی جام بھر جاتا

اگر خاموش نہ رہتا تو دشمن اس طرح بے باک نہ ہوتا
یہ سینہ چاک نہ ہوتا، بدن یوں خاک نہ ہوتا
دل افسردہ کی سب شاخساروں پر خوشی کے پھول کھل جاتے
یہ ناکامی نہیں ہوتی، یہ محرومی نہیں ہوتی
یہ ویرانی نہیں ہوتی
زبان حال پر یوں بے کسی طاری نہیں ہوتی

اگر قفلِِ خموشی توڑ کر باہر نکل آتا
سیاہی سے بھری خود غرض اور خود بین محفل میں
زباں گر مصلحت بینی کے گر سے آشنا ہوتی
ترازو میں تلے الفاظ سے ہم رشتگی ہوتی
یہ سینہ چاک نہ ہوتا، بدن یوں خاک نہ ہوتا
یہ ویرانی نہیں ہوتی، یہ تنہائی نہیں ہوتی
تہی جھولی نہیں ہوتی، شکستہ پر نہیں ہوتے
یہ خالی جام بھر جاتا
یہ صحرا سبزہ بن جاتا

یہ ہونے اور نہ ہونے کی کہانی اک معما ہے
یہ ہونا کیسے ہوتا ہے، نہ ہونا کیسے ہوتا ہے
سوالوں میں گھرے خوابوں کی یہ غم ناک بپتا ہے
اگر ایسا نہ ہوتا تو
اگر ویسا نہ ہوتا تو

خوشی کی رُت کے دروازے کی کنجی کیسے ملتی ہے
شکستہ حال ویرانوں کی قسمت کیسے کھلتی ہے
یہ مختاری کا کیا قصہ ہے، مجبوری کا کیا قصہ
یہ ہونا کیسے ہوتا ہے، نہ ہونا کیسے ہوتا ہے!!

***      ***

 

تیسرا درجہ

تیسرے درجے کا شہری
تیسرے درجے میں کرتا ہے سفر
زندگی کے تیسرے درجے میں کرتا ہے سفر
ٹوٹٰی پھوٹی چپلیں، میلا کچیلا پیرہن
تیسرے درجے کی روٹی
تیسرے درجے کا پیٹ
آنسو پیتے، کانٹے کھاتے زرد رُو بچوں کا ساتھ
تیسرے درجے کا جیون، تیسرے درجے کی موت

اُجلے چہروں، اونچے محلوں، اونچی دیواروں کے بیچ
قہقہوں کی جگمگاتی محترم دنیا کے بیچ
جگمگاتے ساز و ساماں سے سجے
خوش رنگ بازاروں کے بیچ
تیسرے درجے کا شہری
زندگی کے تیسرے درجے میں کرتا ہے سفر

تیسرے درجے کا جیون، تیسرے درجے کی موت

***      ***

یہ کارِ بندگی ٹوٹے

ہوا کے اُڑتے آنچل پر مہکتے گیت لہرائیں
محبت کی زباں میں روشنی کے لفظ لکھ جائیں
زمیں کی حیرتوں سے گفت گو کا سلسلہ پھیلے
طلسم زندگی سے دوستی کا سلسلہ پھیلے
قدیم اسباب کی زنجیر سے رسم وفا ٹوٹے
یہ کار بندگی ٹوٹے، سکوتِ عاجزی ٹوٹے
سوال وصل پر تہمت گری کا سلسلہ ٹوٹے
جوازِ جبرِ دنیا کے فسانے بے نشاں ٹھیریں
لب اظہار کی لذت سے آدم کا جہاں مہکے
تپش سینے کی بجھ جائے، زمیں کا غم پگھل جائے
عذابوں کے ڈراووں کی فصیل آہنی پگھلے
عروس زندگی کو کھل کے ہنسنے کی اجازت ہو
جو تشنہ لب ہیں ان کو کھل کے پینے کی اجازت ہو
تڑپتی خواہشوں کو کھل کے جینے کی اجازت ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).