بیٹی کا سکول میں پہلا دن


”تین ساڑھے تین سال بھی بھلا عمر ہے سکول جانے کی!“۔ عزیز از جاں دوست سید علی رضا نے مجھے سخت الفاظ میں متنبہ کیا۔ (علی ایک روشن خیال، روایت شکن، کتاب دوست اور انسانوں سے محبت کرنے والا نوجوان ہے)۔ علی کے مطابق یہ عمر رنگ برنگی تتلیاں پکڑنے کی ہے۔ جگنوؤں کو آنچل میں چھپا کر کھلکھلا کر ہنسنے کی ہے۔ مٹی کے گھروندے بنا کر پھر سے ڈھا دینے کی عمر ہے۔ گڈی پٹولوں سے کھیلتے رہنے کے دن ہیں۔ ابھی تو باپ کی بانہوں میں لیٹ کر پریوں کی کہانیاں سننے کا زمانہ ہے۔

لیکن میرا خیال تھا کہ ون کلاس سے پہلے بچی کو پلے گروپ، نرسری اور پریپ کے تین سالوں کا سفر طے کرنا ہے۔ لہذا روش زمانہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے بیٹی کو سکول داخل کروا دیا۔
پہلے دن سکول جاتے ہوئے مائرہ بہت خوش تھی۔ اس کے ننھے سے دل میں پھلجھڑیاں سی پھوٹ رہی تھیں۔ کہتی تھی وہ سکول میں جھولا جھلائے گی۔ سلائیڈز لے گی اور دوسرے بچوں سے مل کر آنکھ مچولی کھیلے گی۔ نئی وردی اور نئے سکول شوز پہنے گی۔ باربی ڈول کی تصویر والے بیگ میں نئی کتابیں، پنسلیں اور کلرز ڈال کر وہ کبھی عمار(بھائی) کی کلاس میں چلی جایا کرے گی اور کبھی عروبہ یا رومیسہ(کزنز) کے پاس جا بیٹھے گی۔ ٹیچر ماما کی طرح پیار دے گی اور ہر بات مان لے گی۔ جب من چاہے گا گراؤنڈ میں کھیلنے چلی جایا کروں گی۔ ٹیچر ایک گال پہ خوش رنگ سٹار بنائے گی اور دوسرے پہ موٹی آنکھوں والا کارٹون۔ جب بھوک لگے گی لنچ بکس کھول کے ساری چیزیں مزے سے کھاؤں گی۔ سکول میں فنگشن ہو گا تو پری والا فراک پہن، پری کا روپ دھارے پرفارم کروں گی۔ سب بچے تالیاں بجائیں گے۔ ترانے گائیں گے۔ اور مجھے شیلڈ بھی ملے گی۔

یہ سب شاید اس نے عمار، عروبہ اور احسن سے سن رکھا تھا۔ اس کے خیال میں سکول میں موج مستی ہوتی ہے اور چار سو بس من چاہی خوشیوں کے ڈیرے ہوتے ہیں۔
میں جانتا تھا کہ بچی کے خیالوں میں بنا یہ پر کشش سکول اس کے پہلے دن ہی دھڑام سے زمیں بوس ہو جائے گا۔ میں اداس تھا۔ عجیب طرح کی سوچوں نے یلغار کر دی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ زندگی کے پر خار اور کٹھن راستوں پر بیٹی کا یہ پہلا قدم ہے۔ ابھی تو طویل مسافت کا سامنا ہو گا۔ والدین کب تک ہم سفر رہ سکتے ہیں!

ننھی سی جان کو جو گھر میں من چاہا جیون جی رہی تھی اب سکول کی حدود و قیود میں جینا سیکھنا ہو گا۔ بچپن کی آزادی پہ اب پہروں کی ابتدا ہونے کو تھی۔
مائرہ کو سکول چھوڑنے کے بعد موٹر سائیکل پہ گھر لوٹتے ہوئے بیٹی کی ڈھارس بندھانے والے باپ کے ضبط کے سارے بندھن آنسو بن کر شرٹ پہ ٹپکنے لگے۔ ساحر لدھیانوی کا مصرعہ بار بار دل میں خاموش صدا بن کر گونج رہا تھا۔
”بابل کی دعائیں لیتی جا۔ جا تجھ کو سکھی سنسار ملے“

پہلا دن تھا تو میں چھٹی سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی مائرہ کو لینے سکول چلا گیا۔ وہ کلاس سے سکول آفس میں آئی تو چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ صبح کے وقت جن آنکھوں میں ستارے جگمگا رہے تھے اب انہیں آنکھوں میں ویرانی سی چھائی تھی۔ بیٹی نے سکول کا جو نقشہ خیالوں کی بستی میں بسایا تھا وہ سب ٹوٹ چکا تھا۔ مجھے دیکھا تو سہمے چہرے پہ مسکراہٹ کی چند کلیاں پھر سے کھل اٹھیں۔ آتے ہی لپٹ گئی اور پوچھا ”پاپا! ماما کہاں ہیں؟ “
اس کا خیال تھا کہ ماما پاپا صبح سے سکول آفس ہی بیٹھے تھے۔

گھر آکے کچھ کھایا پیا اور سو گئی۔ نیند میں اچانک یوں چلا کے اٹھ بیٹھی کہ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ پہلے کبھی سوتے ہوئے اتنا ہڑبڑا کے نہیں اٹھی تھی۔ ضرور کوئی ڈراؤنا سپنا دیکھا ہو گا۔ سونے سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ کل بٹیا نے پھر سکول جانا ہے۔

سہ پہر سو کر اٹھی تو رات سونے تک بار بار یہی کہتی رہی کہ ’کل سکول نہیں جانا‘۔ پوچھا کہ کیوں نہیں جانا تو کہتی کہ ٹیچر پاپا کے پاس نہیں جانے دیتی۔ نہ عمار اور عروبہ کے کمروں میں جانے دیتی ہے۔ ایک بار بھی جھولوں پہ نہیں جانے دیا۔

ہم نے کل سکول جانے کا اصرار کیا تو کہتی کہ اگر ماما پاس بیٹھی رہے کلاس میں تب جاؤں گی۔ مجھے کل کی فکر تھی کہ جب اس کی ماما کلاس روم تک چھوڑنے جائے گی تو مائرہ اپنی ماں کے دامن سے لپٹ جائے گی۔ ماں جب اس کی بھنچی ہوئی ننھی ننھی انگلیوں سے دامن چھڑائے گی تو وہ بہت روئے گی۔ کیونکہ والدین کے سہارے کے بغیر اسے کوئی کام کرنے کی عادت نہیں۔ گڑیا! اب آپ کو یہ عادت اپنانا پڑے گی۔

بچی سکول کیوں نہیں جانا چاہتی تھی؟ پلے گروپ میں جہاں بچوں کو کھیل کھیل میں سکھانا چاہیے وہاں ان کو مسلسل پانچ گھنٹے رٹہ لگانے اور لکھانے پہ لگائیں گے تو پھر بچے کا جی تو اچاٹ ہو گا۔ ٹیچرز کی ڈانٹ ڈپٹ، سارا دن اونچی آواز میں دہرائی، نہ کھیل نہ جھولے نہ سلائیڈز۔ بس کام کام اور پھر گھر پہ کرنے کو بھی ڈھیر سارا ہوم ورک۔ سکول کیا ہیں خوف اور سٹریس پیدا کرنے والی مشینیں ہیں۔ جس میں گزر کر بچے سہم جاتے ہیں۔ مرجھا جاتے ہیں۔

کاش ایسا کوئی سکول ہوتا جیسا مائرہ نے اپنی آنکھوں کی خواب گاہ میں تعمیر کیا تھا۔ میں اپنی بیٹی کو اسی سکول میں داخلہ لے دیتا۔
مجھے افسوس ہے کہ ننھی سی جان کا چھوٹا سا خواب بھی پورا نہ ہو سکا۔

مائرہ بیٹی! خدا کرے کہ تم زندگی کے ہر کٹھن راستے سے سرخرو ہو کر ہنستے ہوئے گزر جاؤ۔ خدا کرے کہ تمہارے سہارے ہمیشہ قائم رہیں۔ مگر بنا سہاروں کے بھی تمہارے قدموں میں لغزش نہ آئے۔ تمہاری مسکراہٹ ہمیشہ زندہ رہے۔ تمہارا اعتماد نہ ٹوٹے۔ تم جگ جگ جیو۔
خدا اگر مجھ سے کہے کہ ” تیری ایک خواہش پوری ہو سکتی ہے۔ مانگ کیا مانگتا ہے؟ “
میں خدا سے تیرے لیے سکھی سنسار مانگ لوں۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti