کم بختوں نے باب الاسلام کو بھی مکروہ کر دیا


سندھ میں “ام المسائل”پارٹی کے کرتا دھرتاؤں نے ام الخبائث کو رواج دے کر باب الاسلام کو بھی بدنام کر دیا۔ یہ شرجیل میمن اور اس کے ہمنواؤں کی کوتاہ بینی اور کم نگاہی ہی کہی جا سکتی ہے کہ ستم ظریفوں نے شفاخانے کو مے خانہ بنا ڈالا۔ دوا سے کام نہ چلا تو دارو کو تریاق سمجھ کے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ عاقبت نااندیشوں نے بیماری کا بہانہ بنا کر شاہانہ پروٹو کول اور پر تعیش مراعات کو شیر مادر سمجھ کر برتنا شروع کر رکھا ہے۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے ہر دل عزیز اور وطن و اہل وطن کا درد رکھنے والے چیف جسٹس کا کہ جنہوں نے مخبروں کی مستند مخبری پر چھاپا مار کر عین موقعے پر رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ شرجیل بیچارہ تو یہ بھی نہ کہہ سکا کہ
ساقیا!تشگی کی تاب نہیں
زہر دے دے اگر شراب نہیں

چیف جسٹس بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری سیاست میں شراب،شباب اور کباب کی کہانیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہماری سیاسی و پارلیمانی تاریخ کے بڑے لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو بھی روز ابر و شب ماہتاب میں دو گھونٹ پی ہی لیا کرتے تھے۔ جب شراب نوشی کے حوالے سے کسی عابد و زاہد قسم کے تہجد گزار نے لعنت ملامت کی اور انہیں یوم آخرت کے انجام سے ڈرایا تو بنت انگور کے رسیا لیڈر نے ترنت مے خواری کو یہ کہہ کر سند جواز بخشی کہ ہاں میں شراب پیتا ہوں، لوگوں کا خون نہیں پیتا۔ اس پر وہ واعظ خود پرست اپنا سا منہ لے کے رہ گئے تھے۔ شاید ایسے ہی کسی موقعے کے لیے دور اندیش اور پینے پلانے کا شوق رکھنے والے شاعر خوش ذوق نے کہا تھا
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے

ہمارے حکمرانوں میں ایک اور طبیعت کے رنگین اور دل کے سنگین شاہین صفت مجاہد بھی گزرے ہیں جنہوں نے کثرت مے خواری میں ملک تو توڑ دیا مگر اپنا نشہ نہیں ٹوٹنے دیا۔ وہ شراب دو آتشہ کے کئی جام چڑھا کے امور مملکت چلانے میں ید طولی رکھتے تھے۔ ایک فارسی شاعر نے شراب دو آتشہ،شب ماہتاب اور چودہ سالہ خوباں کو متاع حیات قرار دیا تھا۔ شاعر صاحب کی یہ خواہش تو تشنہ ہی رہی لیکن ہمارے ڈھول سپاہی ہمہ وقت ان نعمتوں سے مستفید ہوتے رہے۔ جب کبھی تھوڑی دیر کے لیے ہوش میں آتے تو مملکت خداداد کے دو لخت ہونے کا غم غلط کرنے کے لیے دوبارہ سرمستی اور بے خودی میں یہ کہتے ہوئے ڈوب جاتے کہ

مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

ان کے اور جناب بھٹو کے دور میں پینے پلانے کی کھلی آزادی تھی۔ ہر جگہ شغل مے برپا کیا جا سکتا تھا۔ ہر طرف سرور و نشاط کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ہر گلی محلے میں ساقی گری کا فراخدلانہ اہتمام ہوتا تھا۔ فصل گل، روز ابر اور شب ماہتاب میں تو جگہ جگہ مے خانے کھل جاتے تھے۔ تشنہ لب کہیں بھی جا کر اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ اس دور میں خال خال ہی کوئی ساقی کے لطف و کرم سے محروم رہتا تھا۔ جو لوگ مے خانے میں جانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے وہ بھی تشنہ کام اور تہی جام نہیں رہتے تھے کیونکہ وہ اپنے محبوب کی چھلکتی ہوئی آنکھوں سے جام کے جام لنڈھاتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس وقت کا ساقی آج کے ساقی کی طرح تنگ نظر، بوالہوس، کنجوس اور بخیل نہیں تھا بلکہ وہ مفلوک الحال اور آشفتہ مزاج مے نوش کو دیکھتے ہی پہچان لیتا تھا اور اس کی مے نوشی اور اپنی ساقی گری کا بھرم رکھتے ہوئے اسے عیاشی کروا دیتا تھابشرط کہ اسے مے نوشی کا سلیقہ آتا ہو

سلیقہ مےکشی کا ہو تو کر لیتی ہے محفل میں
نگاہ مست ساقی مفلسی کا اعتبار اب بھی

ادھر وضع دار،بامروت اور پاس وفا رکھنے والا مفلس و نادار مے کش ساقی کا ممنون احسان ہو کر یوں گویا ہوتا تھا

دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے

مگر اس کے بعد مرد مومن مرد حق کا پارسائی اور خودنمائی میں سر تاپا ڈوبا ہوا عہد زریں آیا۔ موصوف نے بیک جنبش قلم پورے ملک کو زہد و تقوی اور پرہیزگاری و پاکیزگی کے پانی سے غسل دے ڈالا۔ پوری ریاست کو صوم و صلوۃ کا پابند بنا کر شراب خانوں کو بند کر کے تمام باسن تڑوا دیے اور شراب خانوں کی جگہ مساجد کی تعمیر کا حکم دے کر دنیا بھر سے مجاہدین اکھٹے کرنا شروع کر دیے تاکہ لال قلعے سمیت ساری دنیا پر اسلامی پرچم لہرایا جاسکے۔ مشرف کے زمانے میں ایک مرتبہ پھر رندوں نے سر اٹھایا اور ہر طرف سے شراب کہن پینے پلانے کی آواز بلند ہونے لگی۔ مشرف کی ایک خوبرو دوست اور پرستار نے کچھ زیادہ ہی عجلت پسندی اور بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کے سر عام بوتل کو منہ لگا دیا کہ

ابھی زندہ ہوں تو جی لینے دو
بھری برسات میں پی لینے دو

یہ حرکت ہمارے پارسا محتسب کو اس قدر ناگوار گزری کہ وہ بیچاری ابھی تک پیشیاں بھگت رہی ہے۔ یادش بخیر دھرنے کےدوران علی امین گنڈا پور نےبھی خوش ذوقی کا ثبوت دیتے ہوئے “شہد و شیریں”کی مکمل حلال سیکڑوں بوتلیں بغرض علاج معالجہ بنی گالہ پہنچانے کی کوشش کی تھی جسے ہمارے شاہین صفت پولیس اہل کاروں نے شراب کی بوتلیں سمجھ کر پکڑ لیا تھا۔ حالانکہ ان میں تو گنڈا پوری شہد تھا۔ ہمیں یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ جناب چیف جسٹس کو شرجیل کی مے کشی پر اعتراض ہے یا شفاخانے کو مے خانہ بنانا انہیں ناگوار گزرا ہے! مجھے لگتا ہے کہ ان کے غم و غصے کی بڑی وجہ مؤخر الذکرہے۔ اس پر شرجیل میمن صاحب دست بدستہ یہ عذر دل پزیر پیش کر سکتے ہیں کہ

خدا شاہد برا کہتا نہیں جنت کو میں لیکن
مزا کچھ اور ہی ہے مے کشی کا”شفاخانے”میں

سنا ہے شرجیل میمن جو کرپشن کے کیس میں پابند سلاسل ہیں، بغرض علاج نجی ہستال میں داخل تھے جسے سب جیل قرار دیا گیا تھا۔ ویسے علاج تو ان کا اب ہو گا پہلے تو شغل میلہ جاری تھا۔ شرجیل کے ملازم نے پکڑی جانےوالی بوتلوں کو شہد ،پانی اور زیتون کے تیل والی بوتلیں بتایا ہے۔ ہم شرجیل صاحب کے ذوق جمالیات اور وسعت نظر کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جنہوں نے شراب کی بوتلوں میں شہد وغیرہ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ سپریم کورٹ کے عملے نے بوتلوں کو سونگھ کر ان میں شراب کی موجودگی کی نشان دہی کی۔ ادھر شرجیل صاحب رقت انگیز اور درد و سوز میں ڈوبی ہوئی آواز میں دہائی دیتے رہے کہ

یہ سربمہر بوتلیں ہیں جو شراب کی

راتیں ہیں ان میں بند ہمارے شباب کی

ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ شرجیل میمن بھی یہ کہنے کے قابل ہو گئے ہیں کہ جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا۔ ساتھ ہی افسردہ بھی ہیں کہ نئے پاکستان اور اسلام کے قلعے میں یہ سب کیا ہو رہا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).