زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا، پیام آیا


1۔ زہے مقدر:

کیا واقعی دو ہفتے بعد میری زندگی بدلنے والی ہے؟ اس کتاب کا وہ صفحہ الٹنے والا ہے جس کی راہ میں ہزارہا قسم کے مسائل الجھے ہوئے تھے۔ یہ سوال میں نے اپنے جرنل پر تب لکھا جب مجھے شکے تھا کہ میاں صاحب کا ارادہ بدلے گا، ویزہ نہیں لگے گا، چھٹی کہاں ملے گی، بچوں کے امتحان یا کوئی بھی بیکار کا مسئلہ ہمارے قدموں سے الجھے گا اور خدا کی عظیم ترین سرزمین کی زیارت ہماری حدوں سے ادھر ہی رہ جائے گی۔ مگر اس بار عظیم الشان دربار سے منتخب لوگوں میں ہم خستہ تنوں کے نام منظور ہو چکے تھے اور خدا اور اس کے محبوب کے در سے ہماری حاضری کے سمن جاری ہو چکے تھے سو اس بار نہ میاں کا ارادہ بدلا، نہ ہائی کمیشن نے ہمارے ویزوں پر سوال اٹھایا، نہ آفس کی میٹنگز آڑے آئیں، نہ سکول نے تیور دکھائے اور ٹکٹس ہر رکاوٹ سے کامران ہو کر ہمارے ہاتھ میں پہنچیں تو دل کو یقین ہوا کہ اب کچھ نہیں بچا ہمیں روک سکنے والا۔

اب کی بار تو سر کے بل بھی جانا ہی ہو گا۔ تو واقعی کل ہماری زندگیاں بدلنے کے لئے مغرب کی سمت اک اڑان بھریں گی اور نجانے کیا کیا کاٹھ کباڑ کاندھے پر لادے لے کر جائیں گی اور وہاں پر ہمارے گناہگاروں کے لئے بنے کباڑ خانے میں فارمیٹ ہونے کے لئے جمع کروا آئیں گی۔ پھر ہم اپنی زندگیوں کی ڈسک فیکٹری ورژن میں لے کر جھولی میں کیا کیا خزانے اور سر پر کیسے کیسے تحائف سے لدے پھندے لوٹیں گے کہ اس بار اس بادشاہ کے مہمان ہونے جا رہے ہیں جس سے بڑی اس زمین و آسمان میں کوئی طاقت نہیں۔ اور اس کے محبوب کی لحد مبارک پر حاضری دینے والے ہیں کہ جس کے نور سے بڑھ کر آج تک دنیا میں اجالا نہ ہوا۔

کون جانتا ہے کہ اگلے پانچ دن زندگی کا کیا کچھ بدل دیں، کس قدر بدل دیں مگر اس کے سوا اور کوئی توقع نہیں کہ اس سرکار کے ہاں سے جھولی بھرے بغیر کوئی لوٹایا نہیں جاتا۔ تو ہم بھی جھولی پھیلائے مغفرتیں، رحمتیں، برکتیں اور نوازشیں دامن میں بھرنے کی آس لگائے مٹی کے لبادے اوڑھے اس اصل مالک کی طرف محو پرواز ہونے والے ہیں کہ جس نے ہماری روحوں کو اپنے اصل پر بنا کر اسے مٹی کے کمتر جسموں میں قید کر دیا تو اپنے اصل سے ملنے کو بیتاب روحیں مٹی کے میناروں کو دھکیلتی لے جائیں گی۔ ان مٹی کے محلات پر تنے اپنے گنبد نما سروں کو کالی کوٹھری کی دیواروں پہ ماریں گی اور قید و بند کی صعوبتوں کے نوحے پڑھیں گی، دہائی دیں گی، اور اس کی بنائی دنیا کے گورکھ دھندوں کے مرثیے سنائیں گی اود وہ کالی کوٹھری پر بیٹھ کر پوری کائنات میں روح پھونک دینے والا سب سنے گا اور اسقدر سنے گا کہ جتنا فیس بک کا ڈیٹا کولیکشن ساری دنیا کو گلوبل ویلج میں گھیر کر بھی سمیٹ نہیں پاتا۔

تو پھر یقیناً آنے والی صبح اک نئی زندگی کا جنم ہونے والا ہے۔ اک ایسی پوتر اور نوزائیدہ زندگی کہ جس کے سمن دکھانے کو نہ تو کسی فقیر نے سڑک پر ہمارا پلو تھاما اور دھمال ڈالکر بتایا کہ تیرے نام کی ٹکٹ کٹ چکی۔ نہ کسی حالیہ خواب نے کوئی پیشگوئی کی، کسی موچی، بڑھئی، اور نہ ہی کسی بوڑھی عورت نے آنکھ ہی ماری۔ ہاں مگر آج سے کوئی بیس سال پہلے کا اک سبزے سے اٹا خواب کہ جسمیں سولہ سترہ سال کی کمسن لڑکی پیارے نبیؐ کے روضہ رسول کے قدموں میں بیٹھی درود پاک پڑھتی تھی۔ اور پہلو میں بیٹھی کوئی خاتون اس کے ہاتھ میں اک کتابچہ دیتی اور کہتی تھی کہ” درود پڑھو”۔ پھر بیس سال گزر گئے درود پاک کو اس لڑکی کی ہر دھوپ چھاؤں کا آسرا بنے، اور آج وہ کمسن لڑکی اک تھکی عورت میں بدل کر اس حاضری کے قابل ہو سکی۔

وہ حاضری جو دو دہائیوں پہلے دیکھے جانے کے باوجود آج بھی چشم تصور کو اسی وضاحت کے ساتھ یاد ہے جیسے یہ کل رات کا واقعہ ہو۔ بیس سالوں میں ہزارہا خواب، لاکھوں تعبیریں، ڈھیروڈھیر حقیقتیں، اور موج در موج انٹرنیٹ کی لہریں، سب ملکر بھی اس خواب کے اجالے پن کو دھندلا نہ کر سکے۔ دس سال ہی پرانا کوئی بارہا دیکھا جانے والا مشہور زمانہ ڈرامہ بھی شاید اتنی وضاحت سے یاد نہ ہو جیسے سبز رنگ میں لپٹی روضہ رسول کی جھلک آج بھی نگاہوں کے سامنے اسی تابانی سے چمکتی اپنی سچائی کی تصدیق کرتی ہے۔

تو ہمارا پہلا قدم نبیوں کی سرزمین پر پیارے نبیؐ کے مقدس شہر میں ہو گا کہ جلالی رب کے در پر پہنچنے سے پہلے اک شفیق اور مہربان سفارش بہت ضروری ہے، اور محب کو خوش کرنے کے لیے محبوب کے چرن چھونا کامیابی کی ضمانت ہے۔ تو زندگی تو اسی لمحے بدل جائے گی جب وہ سبز رنگی گنبد آنکھوں کا دلنشین نظارہ ہو گا۔ اور ہماری سانسیں اس ہوا سے زندگی پائیں گی کہ جس میں آج بھی کالی کملی والے کی سانسوں کی ٹھنڈک ہو گی، ان ہواؤں میں جی سکیں گے جن پر وہ وقت سے بہت ادھر ہی سہی مگر اپنی تاثیر سے زرے کو آفتاب کرتے ہیں۔ زندگی تو اس کی دہلیز پر قدم دھرتے ہی ضرور بدل جائے گی۔ گھڑی دو گھڑی کی گرم موبائل پر ٹکی نظر، نیوز فیڈ پر اوپر سے نیچے اور نیچے سے آتی اگر چند ہی لمحات میں سر دکھا کر دماغ کو جام کر سکتی ہے تو اس مہربان سبز گنبد کی تاثیر نجانے کی سی کی سی ٹھنڈک اور قسمت کی پڑیاں ہماری روحوں میں اتار دے، کون جانتا ہے۔

ہم ٹیکنالوجی کی جدید دنیا کے باسی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ہر آواز سے آواز ملانے والے کیا جانیں کہ مکہ اور مدینہ کی ٹھنڈی ہوائیں ہماری کون کون سی گرہ کھول دیں، کون سے جام ہوئے دروازوں کو توڑ دیں، اور کہاں کہاں کے ٹوٹے پرزوں کو پھر سے چالو کر دیں! کون جانے!یہ تو سفر حجاز ہی بتائے گا کہ دو دن بعد زندگی بدلنے کے یہ جھکڑ کس کس سمت سے اڑیں گے کہ دربار بادشاہ سے ہمیں بھی پیام آیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4