نیا پاکستان اور سمندر پار پاکستانیوں کی واپسی


نئے پاکستان کی امید تھی اور صدر ٹرمپ کی طرح نوے دن کا پلان سُن رکھا تھا سمندر پار پاکستانی فرنگیوں کی غلامی سے تنگ اور آنے والی نسل فرنگیوں میں رہتے رہتے کہیں اپنے مُلک کو ہی نہ بھول جائے۔ اسی پریشانی میں ایک اُمید کی کرن جاگی تھی اور نئے پاکستان میں واپسی کے خواب دیکھنے شروع کردیے تھے۔ لیکن سب چکنا چوُر ہوتے دکھائی دینے لگے جب نئے پاکستان کی ابتدا خاور مانیکا اور عثمان بردار سے شروع ہونے لگی ہے۔

بچپن میں جب کسی کو جھوٹے وعدے کرتے تھے اور پورے نہیں کر پاتے تھے تو دادی ماں کہتی تھیں، بیٹا ایک ناں اور سو سُکھ۔ ہم پوچھتے اس کا کیا مطلب؟ تو وہ کہتیں بیٹا جھوٹے لارے سے انکار ہی بہتر ہوتا ہے نہ کہ جھوٹی اُمید دے کر لوگوں  کے جذبات سے کھیلا جائے۔ تو اب اُن کی بات سمجھ آتی ہے کہ سیاست دان تو کئی برسوں سے عوام کے جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

کافی عرصہ ہو گیا پاکستان کو چھوڑے ہوئے کیا واقعی لوگوں میں اتنی تبدیلی آگئی ہے۔ ایسا تو مغرب میں بھی نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ بچپن میں کہانی سنتے تھے۔ اب جو کام گوگل کرتا ہے اُس وقت بزرگ کرتے تھے۔تو کہانی کچھ یوں تھی

کہ کسی پیر نے یا جوگی نے بادشاہ کو کہا کہ ایک طوفان آئے گا اور سارے لوگوں کی عقل اور حیا نکل جائے گی بادشاہ بھی ہمارے وزیراعظم کی طرح جوگی بابا پہ اندھا عقیدہ رکھتا تھا۔ اُس نے اپنے رائے ونڈ محل (یا بلاول ہاؤس کہ لیں) میں ایک تہہ خانہ بنوانا شروع کردیا خیر کچھ ہی دنوں میں وہ تیار ہو گیا۔ بادشاہ سلامت نے اپنے کچھ وزیروں کے ساتھ طوفان سے بچنے کے لئے تہہ خانے میں رہائش رکھ لی۔ طوفان واقعی آ گیا اور پوری سلطنت کی عقل اور حیا چلی گئی۔ سب لوگ ایک جیسے ہو گئے۔

بادشاہ سلامت خوشی سے باہر نکلے کہ ہم تو بچ گئے۔ جب دربار میں لوگوں کو بلایا اور بات شروع کی تو سب لوگ چونکہ ایک سوچ کے ہو چکے تھے وہ اُلٹا بادشاہ کو پاگل سمجھنے لگے اور کہنے لگے اللّہ بادشاہ سلامت پہ رحم کرے۔ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کوئی دماغی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔

یہی حال ہمارا ہے کہ یا تو ہم پاگل ہیں یا پاکستان میں واقعی سب کچھ الٹ ہو رہا ہے۔ بات کا مقصد خاور مانیکا کا ذکر تھا۔ اگر یہ اُس پاکستان میں ہوتے جو ہم چھوڑ کے آئے تھے تو شرم کے مارے کہیں نظر ہی نہ آتے۔ لیکن یہ تو خبروں کی ہیڈ لائن میں آگئے اور نئے پاکستان کی ابتدا ان کے گھر سے ہی شروع ہوئی۔

ہم لوگ لاہور میں ہوتے تھے تو گاؤں سے پھوپھو کو لے آئے کہ  لاہور دیکھ آئیں۔ والد صاحب کو کھلی ہوا اور شہر سے باہر رہنا اچھا لگتا تھا۔ خالص دُودھ بھی آسانی سے ملتا تھا اور گاؤں جیسا ماحول ان کو پسند تھا۔ رہائش بھی ایسی ہی جگہ پہ رکھی تھی۔ پھوپھو نے سُن رکھا تھا کہ لاہور بہت خوبصورت ہے، تاریخی عمارتیں، ہوٹل اور مینار پاکستان وغیرہ۔ رات کو تو لیٹ آئیں اور سو گئیں۔ صبح ہوتے ہی چھت پہ نماز کے لئے گئیں۔ ادھر اُدھر دیکھا تو کھیت، بھینسں اور گوبر جیسے گاؤں ہی ہو تو جھٹ سے ابو کو آواز دیتی ہوئیں نیچے آئیں، کہنے لگیں، بھائی یہی لاہور ہے تو مجھے ابھی نکالو۔ سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔

یہی حالت ہماری ہے کہ اگر یہی نیا پاکستان ہے تو ہم امید چھوڑ دیں۔ نئے پاکستان کی ابتدا مانیکا خاندان سے ہو رہی ہے جو آدھے تو مسلم لیگ نون میں ہیں اور آدھے نئے پاکستان میں۔ آج سے پہلے بھی تو پولیس کے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ ان کے مسئلے بنتے ہوں گے لیکن اب وہ وزیراعظم کے قرابت دار ہیں تو پوری پولیس کو ہلا کے رکھ دیا۔ پہلے پاکستان میں موروثی سیاست تھی اب پیرنی کا تڑکا لگ گیا ہے۔ اللہ ہی  خیر کرے۔ عثمان بزدار اپنے گھر کی بجلی لگوائے گا۔ شاید ہماری قسمت میں واپسی ہے ہی نہیں اور وزیر اطلاعات تو اللہ دشمن کو بھی نہ بنائے. مجھے تو کوئی مولانا صاحب کی وزیر اطلاعات بننے کو بھی کہے تو معذرت کر لوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).