حقوق انسانی: کیا آزادی صرف آپ کے لئے ہے؟


حقوق انسانی خواہ اقوام متحدہ کے چارٹر سے میسر ہوئے ہوں یا اپنے اپنے ملک کے دستور سے، اس کا، بغیر کسی شرط یعنی اگر مگر if and but، کے بغیر، احترام کرنا ہر شہری پر فرض ہے۔ لیکن آپ کے حقوق کے ساتھ دوسروں کے تئیں آپ کی ذمہ داریاں بھی مرتبط ہیں۔ یعنی حقوق اور واجبات جڑواں بہنیں ہیں یا یوں کہیں کہ چولی دامن کا ساتھ ہے۔
Rights & Duties are Twin Sisters

معاشرے میں خلفشار اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہر شخص اپنے حق کا بے جا استعمال پر اس قدر مصر ہوتا ہے کہ اس کے اصرار سے دوسرے کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ ہزاروں معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے قوانین کی تشکیل ہوتی ہے اور اس میں توازن برقرار رکھنا اہم عنصر ہوتا ہے جسے عرب والے کہتے ہیں : لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام۔ یعنی فریقین میں سے کسی فریق کا بھی نقصان نہ ہو اور یہ جب ہی ممکن ہوگا جب ہر شخص اپنے حق کے دائرے میں رہے۔ اس ملک کے شہری کے ناتے ہمارے حقوق ہیں ہم آزاد ہیں میرے بچے کی سالگرہ کا پروگرام گھر پر ہے فل وولیوم میں ڈی جے بوکس بجائیں گے دیر رات تک شور شرابہ کریں گے میرے پڑوسی میرے حقوق میں دخل اندازی کرنے والے کون ہوتے ہیں۔

حقوق اور آزادی کا یہ جاہلانہ تصور concept اور یہ رویہ آپ کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے لیے کافی ہے اس لئے کہ آپ نے حقوق اور آزادی کے نصف حصہ پر عمل کیا مگر دوسرا نصف دوسروں کے حقوق کی رعایت کو خاطر میں نہیں لایا۔ یہی دوسرے کے حق کی رعایت کرنا ڈیوٹی کہلاتی ہے۔ آپ آزاد ہیں سڑک سرکار کی ہے آپ اپنے گھر کی غلاظت ڈالتے ہیں رہگزر کو کتنی اذیت ہوتی ہے آپ کو اس کی پروا نہیں، پوری سڑک گھیر کر آپ نماز جمعہ ادا کرتے ہیں مگر اس کا خیال نہیں رکھتے کہ کسی کو اپنی بیمار ماں کے لئے دوا لے کر گھر پہنچنے کی جلدی ہوگی کسی اور کو کوئی اور ایمرجنسی ہوگی آپ نے اس کی رعایت کرتے ہوئے ایک گاڑی گزرنے کی جگہ نہیں چھوڑی یہی دوسرے کی حق تلفی ہے اور ذرا غور کریں کہ دوسروں کو اذیت دے کر جو عبادت کی جائے گی وہ عند اللہ کتنی مقبول ہوگی۔

نماز با جماعت ادا کرنا واجب ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگائیں کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جی چاہتا ہے کہ ان مکانوں کو آگ لگادوں جن گھروں سے لوگ مسجد میں آکر نماز باجماعت ادا نہیں کرتے۔ ۔ لیکن دوسروں کو اذیت نہیں دینے کے لئے اللہ کے رسول ص نے لہسن کھاکر مسجد آنے سے منع کیا اس لئے کہ اس کی بو لوگوں کے لئے ناپسندیدہ ہے اور باعث اذیت ہے۔ اللہ کے رسول ص نے اس شخص کو مسجد آنے سے روک دیا جس کے جسم سے کسی بیماری کے سبب بدبو آتی تھی۔

جمعہ کی سنتوں میں غسل کرنا صاف ستھرا لباس پہننا مسواک کرنا خوشبو لگانا اسی لئے ہے کہ جمعہ کی نماز ادا کرنے جامع مسجد ہر طبقہ امیر غریب مالک مزدور آتے ہیں وہ اگر صاف ستھرے نہیں ہوں گے تو دوسرے نمازیوں کو اذیت ہوگی یہی اذیت حق اور فرض رائٹ اور ڈیوٹی کی حد فاصل ہے۔ کانوڑیئے یا محرم اور دسہرہ میلاد النبی اور رام نومی کے جلوس میں کئی کئی گھنٹوں تک سڑک جام کرتے ہیں اور عام آدمی کو اذیت پہنچاتے ہیں یہی حقوق کا غلط استعمال کہلاتا ہے۔

لیکن حقوق اور واجبات Rights and Duties کے ضمن میں ایک حق اظہار رائے کی بھی ہے۔ اپنی رائے بولنے اور لکھنے کی آزادی۔ یہ آزادی انسانوں کو میسر اہم حقوق میں سے ایک ہے۔ لیکن اسے بھی بےلگام چھوڑنا افراد تنظیمیں اور ملکوں کے درمیان باہمی تصادم کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ یہاں بھی ضروری ہوتا ہے کہ انسان اس حق کا استعمال محتاط انداز اور مناسب اسلوب میں کرے تاکہ دوسرے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہونچے۔

اسی طرح ایک حق شخصی آزادی کا ہے۔ آپ اپنی مرضی کا مذہب اختیار کریں اور چاہیں تو بے دین رہیں کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ آپ اپنی پسند کا کھانا کھائیں اپنی پسند کا لباس پہنیں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ لیکن دقت اس وقت پیش آتی ہے جب لوگ اس شخصی آزادی کو غیر شخصی بنا کر اس پر نہ صرف بحث کرتے ہیں بلکہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ کسے کیا کھانا ہے اور کیا پہننا ہے۔ اس سے طے کرنے والوں کی متعصب ذہنیت اور منافقانہ رویہ صاف جھلکتا ہے۔

اس پر بات کرنے کے لئے ٹی وی ڈیبیٹ اور ٹاک شو میں ڈیسنٹ ڈریس کوڈ اور مسلم نمائندگی کے لیے مسلم مس یونیورس کو بلایا جائے گا یا حقوق نسواں کے علمبردار خواتین اور لبرل حضرات کو شریک بحث کریں گے جن کا موٹو ہے ” میری مرضی ” میں جو چاہوں پہنوں جسم کی نمائش کروں نیم عریاں رہوں سی تھرو پہنوں منی اسکرٹ یا شارٹ پہن کر سڑکوں اور بازاروں کی سیر کروں آپ ٹوکنے والے کون ہوتے ہیں اگر مجھے ایسے ڈریس میں دیکھ کر آپ کے جذبات ہیجان انگیز ہوتے ہیں تو آپ ” اپنی نظر نہیں نظریہ بدلیں“۔

میں بھی اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ دوسروں کی شخصی آزادی میں دخل اندازی درست نہیں ہے لیکن یہ یک طرفہ نہ ہو۔ اگر کچھ مسلم خواتین اپنی پسند کے شلوار قمیض دوپٹہ اپنی مرضی کے عبایہ حجاب نقاب چادر اوڑھے تو دوسروں کے پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے یہ نام نہاد تعلیم یافتہ ماڈرن خواتین ان کو ان پڑھ جاہل گنوار دقیانوسی کیوں کہتی ہیں وہ کیوں ان کی پسند میں مداخلت کرتی ہیں کیا یہ حق تلفی نہیں ہے۔ کیا ڈیسنٹ ڈریس کوڈ طے کرنے کی مونوبولی ان کے پاس ہے۔

اگر ”میری مرضی ” کے تحت مرد حضرات بھی انڈر ویر میں شاپنگ مال اور مارکیٹ میں پھریں تو کیوں فقرے کسے جاتے ہیں بدتمیز بد تہذیب غیر مہذب جنگلی اور انڈیسنٹ۔ پولیس یا باونسر کو بلا کر ایسے شخص کو مال سے بار سے باہر کرایا جاتا ہے۔ ہم بچوں کو چھوڑنے صبح صبح ٹراوزر میں ہی اسکول پہنچتے تھے خواتیں کی شکایت پر اسکول انتظامیہ کی جانب سے نوٹس آویزاں کیا گیا کہ والدین بلکہ والد حضرات parents ڈھنگ کے کپڑے proper dress میں اسکول گیٹ پر بچوں کو چھوڑنے آیا کریں اس لئے کہ کچھ خواتین بھی اپنے بچوں کو چھوڑنے آتی ہیں!

آج سے دقیانوسی عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا اور اب ترکی ایک سیکولر ملک ہے جس کی رو سے ہر شخص کو ہر قسم کی آزادی ہے۔ شراب کی دکانیں کھولنے کی آزادی، قحبہ خانے چلانے کی آزادی گلے میں سونے چاندی یا دوسرے دھات کی بنی اپنی پسند کی صلیب لٹکانے کی آزادی قمار خانے چلانے کی آزادی سود پر لین دین کرنے کی آزادی لیو ان ریلیشن نکاح کے بغیر میاں بیوی کی طرح ساتھ زندگی گزارنے کی آزادی وغیرہ وغیرہ۔ بہت عمدہ آپ کا ملک یوروپین اور امریکن اسٹینڈرڈ کا ہوگیا آپ ان کے شانہ بہ شانہ چل رہے ہیں۔

بس ان حقوق، آزادیوں اور سیکولرازم کی ٹانگ اس وقت ٹوٹ جاتی ہے جب ان حقوق کا جائز استعمال مسلمان کرنا چاہے۔ مسجد میں نماز پر پابندی، ٹوپی پہننے پر پابندی دینی کتابوں خاص طور پر جو عربی زبان میں ہو اسے پڑھنے پر پابندی خواتین کا حجاب پہن کر اسکول، کالج، یونیورسٹی، دفاتر پبلک پلیس آفس آنے پر پابندی! یہ دوغلی پالیسی کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).