ہمارے مسائل کیا ہیں اور بحث کا موضوع کیا؟


صاحبو، ایک عُمر گزر جاتی ہے اور آدمی اِس بات سے لاعلم رہتا ہے کہ اُس کو پیش آنے والے مسائل کی اصل وجہ کیا ہے۔ یوں تو کہنے کو بہت آسان ہے کہ یہ تو سب کو معلوم ہوتا ہے لیکن جب آپ ارد گرد غور کریں اور لوگوں کی مباحث کے موضوعات کامطالعہ کریں توآپ دیکھیں گے کہ زیادہ تر لوگ جن باتوں پر بحث کررہے ہوتے ہیں وہ اُن کو لاحق مسائل کی وجہ نہیں ہوتیں۔
ایک بچہ فیل ہوا، پوچھا گیا ”بیٹاکیوں فیل ہوئے ہو؟ ‘‘
بولا”انکل ہماری بجلی بہت جاتی ہے‘‘

بجلی جانا ایک وجہ تو ہوسکتی ہے لیکن ایک طالب علم کے فیل ہونے کی ساری ذمہ داری اکیلی بجلی کے ناتواں کندھوں پر نہیں ڈالی جاسکتی کہ اُس کی حالت پہلے ہی بہت کمزور ہے اب وہ اپنے ذمے کتنے جرم لے۔

یہاں تو حالت یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے نوجوان اپناجی پی اے کم آنے کا سارا مدعاپروفیسروں پر ڈال دیتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ وہ خود بھی سارا سمسٹرکلاس میں داخل نہیں ہوئے، پروفیسر صاحب کو صرف نام اور شکل سے پہچانتے ہیں، نہیں معلوم کہ وہ کلاس میں چھ ماہ کیا پڑھاتے رہے ہیں لیکن ذمہ دار تو پروفیسر صاحب ہی ہیں آخر کو وہ کیوں اتنے روکھے سوکھے مضامین پڑھاتے ہیں۔

ایک بحث یہ بھی اکثر سننے کو ملتی ہے کہ ملک اِس لیے ترقی نہیں کررہا کہ یہاں کے حکمران کرپٹ ہیں اور اپنا کام خوش اسلوبی سے سرانجام نہیں دیتے، دیانتداری کی مثالیں دیتے ہوئے لوگ خود کو مکمل طور پر بھول جاتے ہیں۔

سیاست کی بات چل نکلی تو یہ بحث وہ سانپ سیڑھی کا کھیل ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتاسوشل میڈیا نے تو اور سہولت پیداکردی ہے، پہلے یہ تھا کہ ہئیر ڈریسر شام کو جب اپنی دکان بند کرتا تھا تو بحث بھی وہیں ختم ہوجاتی، پھر اگلے دن دکان کھلتی اور عین اُس دیوار کے نیچے بنے بنچ پر یہ بحث چِھڑ جاتی کہ جس کے پیچھے موجود دیوار ”سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں ‘‘ لکھا ہوتا تھالیکن یہ میلہ شام تک رہتا۔

لیکن اب یہ حالت ہے کہ کسی کے ذہن میں کوئی سوال آئے وہ آدھی رات کو بحث کا نیا دفتر کھول کربیٹھ جاتا ہے۔ اِدھرچند لفظوں کا ایک ٹوئیٹ کیا اور اُدھرواویلا مچ گیا۔ اب تو جناب چوبیس گھنٹے بحث کی سہولت موجود ہے اور بحث بھی اُن موضوعات پر ہوتی ہے جن کا سیاست سے تو کیا لینا دینا خود سیاست دان سے بھی دور دور کا تعلق نہیں ہوتا۔

مثلاً یہ بحث کرنا کہ فلاں سیاست دان صاحب ناشتے میں کیا لیتے ہیں؟ وہ ورزش کرتے ہیں تو کتنی کرتے ہیں، بھاگتے ہوئے گراؤنڈ کے کتنے چکر لگاتے ہیں؟ اور فلاں سیاستدان کو پائے پسند ہیں، تو کیا اُن کا کولیسٹرول نہیں بڑھتا؟ بڑھتا ہے تو وہ اب تک دل کے مریض کیوں نہیں بنے؟ دل کے مریض ہیں تو علاج کہاں سے کرارہے ہیں؟ ملک سے کرارہے ہیں تو کیا اُن پہ غربت کا دور دورہ ہے؟ باہر سے علاج کرارہے ہیں تو کیا اُن کے پاس حرام کی دولت ہے؟ فلاں سیاستدان کے بچے کہاں پڑھتے ہیں؟ اُن میں سے کون لائق ہے؟ کیا فلاں سیاستدان کے بچے ہمارے وزیرِاعظم بن سکتے ہیں؟ فلاں سیاستدان بولتابہت اچھا ہے لیکن ہے کرپٹ۔ یہ گاڑی کہ جس پر سیاستدان سفر کررہا ہے بلٹ پروف نہیں ہے۔

بلٹ پروف گاڑی لے لی تو بحث کا ایک نیا دور شروع ہوجاتا ہے کہ بلٹ پروف گاڑی امپورٹ کرنے پہ کروڑوں خرچ آتا ہے دوسرا رُوٹ لگا کر راستے بند کردیتے ہیں۔ یہ ہیلی کاپٹر پر کیوں نہیں آتے جاتے عوام کو کیوں ناحق تنگ کرتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر لے لیا جائے تو اُس کے خرچ کی بحث چل نکلتی ہے۔ اور یہ بحث جو سانپ سیڑھی کا کھیل ہے چلتا رہتا ہے۔
عوام کو اندازہ ہی نہیں کہ اُن کے مسائل دراصل ہیں کیا، انہیں کن باتوں پر بحث کرنی چاہیے اور کن پر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).