چوبیسواں خواب نامہ۔۔۔ نثر میں شاعری۔۔۔۔


30 مئی 2018
درویش کا رتجگے کرنے والی رابعہ کو سلام۔

رابعہ کا خط ’منتشر و بے ترتیب‘ سے زیادہ گھمبیر و گنجلک تھا جو درویش کو دو دفعہ پڑھنے کے بعد بھی پوری طرح سمجھ نہ آ سکا۔ درویش کو یوں لگتا ہے جیسے رابعہ نثر میں شاعری کرتی ہے اور شاعری بھی ایسی جس سے دانشوری کی خوشبو آتی ہے۔ جب درویش رابعہ کا خواب نامہ پڑھ رہا تھا تو اس کے ذہن میں یہ شعر اتر رہا تھا
؎ رابعہ وجد میں جب آتی ہے۔ اس کے الفاظ رقص کرتے ہیں

رابعہ جب اپنے تجربات‘ نظریات‘ خیالات اور جذبات کو الفاظ کا روپ دیتی ہے تو الفاط اپنی کم مائگی پر نادم ہو جاتے ہیں۔ درویش کی چونکہ رابعہ سے دوستی ہے اس لیے وہ ان الفاظ کے بارے میں سوچتا ہے غور کرتا ہے ان میں چھپے معنی تلاش کرتا ہے وہ نہ صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ رابعہ کیا کہتی ہے کیا لکھتی ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے کیا لکھنا چاہتی ہے۔ رابعہ کے خطوط پر بعض دفعہ جدید افسانے کا گماں ہوتا جو بعض دفعہ تجرید کے اتنا قریب آ جاتا ہے کہ تخلیق آگے نکل جاتی ہے ابلاغ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کچھ چیزیں محسوس ہی کی جا سکتی ہیں سمجھی نہیں جا سکتیں۔ درویش کو یوں لگ رہا ہے جیسے رابعہ اس پر آہستہ آہستہ منکشف ہو رہی ہے۔

رابعہ نے درویش سے انسانی رشتوں کے رازوں کے بارے میں سوال کیا ہے۔ درویش انسانی نفسیات کا طالب علم ہے۔ اس نے کئی ماہرینِ نفسیات کی آرا کا مطالعہ کیا ہے وہ یہاں صرف دو ماہرین کی آرا شیر کرنا چاہتا ہے۔ پہلا ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائڈ FREUDہے جس کا موقف ہے کہ انسان بنیادی طور پر لذت پسند مسرت پسند ہے وہ اسے PLEASURE SEEKING کہتا ہے۔ جس کا زندگی کا مقصد خوشی کا حصول ہے۔

دوسرا ماہرِ نفسیات ہیری سٹاک سالیوان SULLIVANہے جس کا موقف ہے کہ انسان مسرت لذت اور خوشی سے زیادہ کسی اور انسان سے ایک خصوصی تعلق‘ ایک جذباتی رشتہ‘ ایک ذہنی رفاقت چاہتا ہے۔ اگر اسے وہ تعلق حقیقت میں نہ ملے تو وہ اسے تصوراتی دنیا میں بنا لیتا ہے جس کی اس کے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ سالیوان کے فلسفے کے مطابق وہ مرد اور عورتیں جو محبت یا شادی کے رشتے میں دکھی ہو جاتے ہیں دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں وہ پھر بھی ایک دوسرے کو نہیں چھوڑتے کیونکہ وہ اکیلا نہیں رہنا چاہتے ان کے لیے
A BAD RELATIONSHIP IS BETTER T HAN NO RELATIONSHIP سالیوان کا خیال ہے کہ احساسِ تنہائی انسان کا سب سے بڑا جذباتی دکھ ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اکیلے رہ کر بھی خوش رہتے ہیں۔

رابعہ کے خط میں علم کے فرعونوں اور ابوجہلوں کا ذکر پڑھ کر درویش کو وہ ادیب ‘شاعر اور دانشور یاد آ گئے جو خبطِ عظمت کا شکار تھے۔ درویش نے ان کے بارے میں ایک مزاحیہ مضمون بھی لکھا تھا جس کا عنوان تھا۔
۔ میں علیہ السلام

رابعہ کو مرد افسانہ نگاروں سے شکایت ہے کہ وہ عورتوں کی تو کیا مردوں کی نفسیات بھی بیان نہیں کر پائے۔ درویش کا خیال ہے کہ اپنی ذات کو پہچاننا اور پھر اس کا تخلیقی اظہار کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ مشرقی مرد اور عورتیں ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں ابھی تک مذہب اور روایت کی اونچی اونچی دیواریں ہیں اسی لیے درویش نے شعر لکھا تھا
؎ اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں
نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا

ابھی اردو کے افسانہ نگار اس مقام تک نہیں پہنچے کہ پورے انسان کی کہانی لکھ سکیں۔ ابھی تک مشرق کے مرد کے اعصاب پر عورت سوار ہے وہ ابھی اس کی دوست نہیں بنی۔ درویش کی ایک مختصر نظم ہے
وصل کی لذتوں کا مزا چھوڑ کر
آؤ کچھ دیر کو آج باتیں کریں
ابھی مشرقی مرد اور عورت نے ایک دوسرے کے ساتھ دو انسانوں کی طرح باتیں کرنا نہیں سیکھا۔

ان تمام مسائل کے باوجود درویش پر امید ہے کہ انسان دھیرے دھیرے ارتقا کا سفر طے کر رہا ہے اور زندگی کے رازوں سے پردہ اٹھا رہا ہے۔ درویش کے پہلے شعری مجموعے کا نام ’تلاش‘ تھا اور یہ تلاش ابھی تک جاری ہے۔ اس تلاش میں درویش اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہے کہ اسے زندگی میں چند مخلص اور حساس مرد اور عورتیں دوست ملے جن سے وہ دل کی بات کر سکتا ہے۔ اسے کتنی خوشی ہے کہ اس کیرابعہ سے دس ہزار میل دور بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے ملاقات ہو گئی جس سے وہ ادبی مکالمہ کر سکتا ہے۔

درویش رابعہ سے پوچھنا چاہتا ہے کہ اس کے ذہن میں ایک کامیاب ادیب کا کیا تصور ہے اور کیا وہ خود کو ایک کامیاب ادیبہ سمجھتی ہے؟
درویش اب اجازت چاہتا ہے۔ اسے کلینک جانا ہے کیونکہ چند مریض اس کا انتطار کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).