اپوزیشن جماعتیں اور ٹوٹ بٹوٹ کی کھیر


جب عمران خان نے ایک شہسوار کی طرح اقتداری گھوڑے کی باگیں سنبھالی تو سیاسی پنڈتوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ معمولی اکثریت اور مضبوط اپوزیشن کی بنا پریہ اپنی منزل تک شاید ہی پہنچ سکے کیوں کہ اس سفر میں بے شمار کھائیاں اور ڈھلوانیں آتی ہیں ذرا سی غفلت سے پاؤں رپٹا تو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ عمران کا سامنا ایک مضبوط اپوزیشن سے تھا اگر یہ گھورا سرپٹ بھاگے گا تو مشکل سے منزل پائے گا لیکن اسپیکر کے انتخاب کے بعد اپوزیشن کی نااتفاقی اور منقسم صورتحال نے یہ واضح کر دیا کہ سرپٹ بھگانے کی بجائے اب صرف دلکی چال سے کام چلایا جا سکتاہے۔

انتخابی نتائج کے بعد یہ عام خیال تھا حزبِ مخالف کی جماعتیں متحد ہو کر حکومتی اتحاد کو ناکوں چنے چبوائیں گی۔ شروع میں مفاہمت کے بادشاہ نے سپیکر اور وزیرِ اعظم کا انتخاب اکٹھے لڑنے کا عندیہ دے کر اپوزیشن کی کمر پرتھپکی دے کر مضبوط کرنے کا اشارہ دیالیکن سپیکر کے الیکشن کے بعد وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ نہ لے کر اپوزیشن کے اتحاد کو تھپک تھپک کر گہری نیند سلا دیا۔

عجیب اتفاق ہے کہ وزیراعظم کے منتخب ہونے کے فوری بعد صدر مملکت کا انتخاب آن پڑا ۔ ادھر پیپلز پارٹی نے عجلت میں بغیر مشورہ کئے اپنا امیدوار اعتزاز احسن میدان میں اتار دیا جس پرن لیگ نے کافی اعتراضات کئے ۔ن لیگ ایک متفقہ صدارتی امید وار میدان میں لانا چاہتی تھی ایسے میں مولانا فضل الرحمان بیچ میں ثالثی کے لیے کودپڑے لیکن بعد ازاں خود امیدوار کا سہرا سر پر سجا کرصدارتی منصب کے دلہا بن بیٹھےاور اب ن لیگ مولانا کو اپنا صدارتی امیدوار مان کر اپنے کندھے سے بوجھ اتار کر باقی جماعتوں کے سامنے سرخرو ہونے کی ناکام ایکٹنگ کررہی ہے۔

ادھر پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے مولانا فضل الرحمان ان کے حق میں دستبردار ہو جائیں جبکہ باقی جماعتیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ اعتزاز احسن مولاناکے حق میں بیٹھ جائیں ۔ دونوں طرف سے باتوں کے تیر تفنگ چل رہے ہیں اورآج کل حالت کچھ یوں ہے کہ
بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں

یہ اپوزیشن نہ صرف منقسم ہے بلکہ آپس میں متصادم بھی ہے ۔یوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک طرح سے پی ٹی آئی کے سہولت کار بھی بنے ہوئے ہیں۔کچھ اندرونی حلقوں کی خبر یہ بھی ہے کہ ن لیگ کے بہت سے ممبر مولانا کو ووٹ بھی نہیں دیں گے۔اس طرح پی ٹی آئی کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی آسانی سے صدر منتخب ہو جائیں گے۔
منقسم اور متصادم اپوزیشن کو دیکھ کر صوفی غلام مصطفی تبسم کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی شہرہ آفاق نظم ’’ ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی‘‘ ذہن میں آتی ہے۔ یوں تو یہ ایک افسانوی کردار ہے لیکن اپوزیشن کے صدارتی امیدواروں کو دیکھ کر یہ کردار حقیقی طور پر جلوہ گر ہوتے دکھائی دیتا ہے۔

نظم کی چند لائنیں:
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی
گاؤ ں کا گاؤں دوڑا آیا
ساری خلقت دوڑی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی

کوے آئے کیں کیں کرتے
طوطے آئے ٹیں ٹیں کرتے
بلبل چونچ ہلاتی آئی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی

سب نے آکر دھوم مچائی
گاؤں بھر میں ہوئی لڑائی
کھیر کسی کے ہاتھ نہ آئی
میرے اللہ تری دہائی
ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).