رستہ جس پر چلے ہی نہیں: رابرٹ فراسٹ کی ایک نظم


رابرٹ فراسٹ ایک امریکن شاعر تھے۔ وُہ کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں 26 مارچ 1874 کو پیدا ہُوئے۔ اُن کی زیادہ تر شاعری زمین سے جُڑی ہے یعنی اپنے اردگرد کی باتیں، گاؤں کی باتیں، رُورل لائف لیکن اِن سب سے ہٹ کر اُن کی شاعری میں فلسفہ ہے جو بُہت عام فہم اور دِل کو چُھو لینے والا ہے۔
اُنھیں سال 1959۔ 1958 Poet Laureate کا اعزاز بھی مِلا جِسے آپ ایک قومی درجے کا شاعر کا درجہ ہی سمجھ لیں۔ اِس کے عِلاوہ اُنھیں Bollingen Prize اور Pulitzer Prize بھی مِلا۔
یُوں تو اُن کی لکھی ہر ایک لائین ہی اہم ہے لیکن چند ایک مشہور کام، شاعری میں درج ذیل ہیں۔

The Road Not Taken ,
The Death of the Hired Man ,
Stopping by Woods on a Snowy Evening ,
A Boy’s Will ,
After Apple-Picking

فراسٹ کی وفات 29 جنوری 1963 کو 88 سال کی عُمر میں بوسٹن میں ہُوئی۔
آج بُہت عرصے بعد رابرٹ فراسٹ کی مشہور انگریزی نظم The Road Not Taken پڑھی تو محسُوس ہُوا کہ واقعی ہمیشہ زندہ رہنے والا ادب اور شاعری کیا ہوتی ہے۔ سدا بہار شاعری، ادب بس وُہی ہے جو وقت کے بے رحم تھپیڑوں اور دباؤ کو برداشت کرسکے۔ اگر ایک لکھی گئی کاوش چند سالوں بعد ہی بے کار محسُوس ہو تو ایسی تحریر ایک ایسی خُود رو جڑی بُوٹیوں سے مُختلف نہیں جو ہر بارش کے بعد جابجا بکھری اور اُگی ہُوئی نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ خُود رو جڑی بُوٹیاں کبھی شاہ بلوط یا برگد کا درخت نہیں بن سکتیں کیونکہ اِن کی سکت ہی اتنی نہیں ہوتی ہے۔

فراسٹ کے مُطابق زندگی بُہت عجیب چیز ہے، یہ ہمیں ہمیشہ سب کُچھ اور ساری تمنائیں ایک ساتھ اکٹھے نہیں دیتی۔ ہمیں ہر صُورت کُوئی ایک شے، کُوئی ایک راستہ، کُوئی ایک خواہش، تمنا چُننی ہوتی ہے اور ظاہر ہے اُسی وقت ایک خواہش، راستہ اور تمنا کو چھوڑنا بھی پڑتا ہے۔

ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم دونوں راستے اکھٹے چُن لیں اور پھر ہمارا سفر کامیابی سے گامزن بھی رہے۔ دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ ہی ڈُوب جاتا ہے۔ راستہ بھی ایک ہی چُننا ہوتا ہے اور ایک چھوڑنا ہوتا ہے۔
سچ کا سفر اور راستہ ایسا ہی راستہ ہوتا ہے جو نہ صرف مُشکل ہوتا ہے بلکہ اُس پر سفر کرنے والے قدموں کے نشان بھی کم ہوتے ہیں اور زیادہ تر اِس راستے پر سفر کرنے والے اکیلے اور تنہا ہی نظر آتے ہیں۔

جبکہ جُھوٹ اور فریب کا راستہ بظاہر دیکھنے میں آسان بھی ہوتا ہے بلکہ اُس پر لاتعداد قدموں کے نشان بھی مُوجود ہوتے ہیں اور راستے میں ساتھ سفر کرنے والے بھی بُہت مِل جاتے ہیں۔
بظاہر یہ ایک مُشکل اور کٹھن فیصلہ ہوتا ہے کہ آپ وُہ راستہ چُنیں جو کم لوگوں نے چُنا ہو لیکن ابدی اور ازلی کامیابی محض اِسی راستے پر چلنے سے ہی حاصِل ہوسکتی ہے۔

ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کبھی ہم پیچھے مُڑ کر دیکھیں تو ہمیں یہ محسُوس ہو کہ اتنا سارا سفر رائیگاں چلا گیا۔ یاد رکھیں زندگی میں دُوسرا موقع بُہت کم خُوش نصیبوں کو مِلتا ہے۔ اگر آج آپ کے پاس موقع ہے اور صحیح راستہ بھی آپ کو نظر آرہا ہے تو کبھی بھی یہ مت دیکھیں یا سوچیں کہ یہ راستہ کِتنا دُشوار گُزار ہے اور شاید آپ کو اکیلے بھی طے کرنا پڑے۔ یہ باتیں سوچ کر اپنا حوصلہ پست نہ کریں بس سیدھا راستہ چُن لیں۔

اگر اِس ساری سوچ کو مذہبی حوالے سے بھی اگر دیکھیں تو ہم بحیثیتِ مُسلمان اپنی زندگی کے اعمال کے جوابدہ بھی ہیں اور ہمیں سیدھا راستہ بھی دِکھا اور بتا دِیا گیا ہے۔ کیا ہُوا جو آج اُس پر چلنے والے لوگ کم ہیں۔
تسلی رکھیں یہی راستہ کامیابی اور کامرانی کی طرف جاتا ہے۔

میں اِس میں کِسی قِسم کا مذہبی پہلو نہیں لانا چاہتا تھا لیکن مُجھے لگا کہ شاید یہ ضُروری ہے۔ ہوسکتا ہے اِسی طرح کِسی کے دِل میں یہ بات اثر کر جائے۔

I shall be telling this with a sigh
Somewhere ages and ages hence:
Two roads diverged in a wood, and I—
I took the one less traveled by,
And that has made all the difference.

اِس پیرا کا ترجمہ کرنا اِس کی زبان اور اسلوب کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ،
پچھلے اشعار سے پیوستہ۔
زندگی کی کٹھنائیوں میں بکھری دو راہیں،
اور میں،
دو راستے،
اور ایک جو میں نے چُنا،
جِس پر قدموں کے نشاں بُہت مدھم تھے،
بس اُن ہی مدھم نشاں رستوں کا فرق ہے آج تک۔

ہارُون مُلک۔ لندن۔ انگریزی ادب کا ایک شائق، سیاحت اور ہوا بازی دیگر مشاغل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).