کیا اصل مجرم بیوروکریسی ہے؟


پاکستان میں ترقی نہیں ہو رہی، عوام کو سہولتیں نہیں مل رہیں، بدانتظامی کی وجہ سے نقصان بڑھتا چلا رہا ہے، وزیراعظم عمران خان نے بھی پچیس جولائی کے انتخابات میں کامیاب قرار پانے کے بعد اپنے پہلے سرکاری خطاب میں گورننس کے بحران کا ذکر کیا اور کہا کہ بیوروکریسی میں اصلاحات کی ضرورت ہے، انہوں نے چند بیوروکریٹوں کے زیر استعمال سو،سو کنال کے گھروں کا بھی ذکر کیا اور بچت مہم پر بھی خاص زور دیا۔ تحریک انصاف کے ووٹروں کی بڑی تعداد بھی یہ سمجھتی ہے کہ بیوروکریٹوں کی بڑی تعداد نواز لیگ کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ یہ بیوروکریٹ نہ صرف نواز لیگ کے وزراء سے کرپشن کرواتے رہے بلکہ خود بھی دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں جنہیں تحریک انصاف کی حکومت ہی، نیب کے ذریعے، لگام ڈال سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ افسر شاہی کیا واقعی اتنی کرپٹ، سست،  نااہل اور سیاسی طور پر جانبدار ہے کہ اس کے خلاف ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے، ہاں، ایسے افسران بھی ہوسکتے ہیں مگر تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ پاکستان میں گورننس کے بحران کے شدید سے شدید تر ہونے کی وجہ ملکی بیوروکریسی میں باصلاحیت نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی عدم دلچسپی ہے۔ کرپشن، سستی، نااہلی اور سیاسی جانبداری کی بھی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ ٹیلنٹڈ یوتھ کے پاس سی ایس ایس کرنا پہلا آپشن نہیں رہا۔ ہم جس بزنس اور کارپوریٹ سیکٹر کے فروغ کی بات کرتے ہیں، دیانت اور محنت کے ساتھ کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی پہلی ترجیح بنتا چلا جا رہا ہے اورا س کی وجوہات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ یہ درست کہ گذشتہ کئی برسوں سے ملکی انتظام و انصرام سنبھالنے کے لئے ہونے والے امتحان میں شریک ہونے والے لڑکوں اورلڑکیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے مگر دوسری طرف کامیابی کا تناسب اتنا ہی نیچے،  دو سے تین فیصد تک، آ گیا ہے یعنی اس شعبے میں آنے کے خواہش مندوں کی بھاری اکثریت نالائق اور نااہل ہے، جو لائق اور اہل ہیں وہ اِدھر کا رُخ ہی نہیں کر رہے۔

ٹیلنٹڈ یوتھ سی ایس ایس میں آکے ملکی اداروں کی باگ دوڑ کیوں نہیں سنبھالنا چاہ رہی۔ اس کا جواب مقابلتا کم تنخواہوں میں بھی ہے جیسے ایک ایسے سرکاری ادارے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر،  جس میں کئی ہزار ملازمین کام کرتے ہیں، کی ملک کے اعلیٰ ترین گریڈ بائیس میں ٹیک ہوم سیلری اڑھائی لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے مگر دوسری طرف اگر پرائیویٹ سیکٹر ایسے ہی کسی سی ای او کو ہائر کرے گا تو اس کی تنخواہ چار سے دس گنا تک ہو سکتی ہے۔ ڈی ایم جی گروپ زیادہ تیزی کے ساتھ ترقیاں لیتا ہے مگر اس کے باوجود سرکاری ملازمین کی اکثریت ایسی ہے جنہیں ایک ایک لاکھ روپے تنخواہ تک پہنچنے کے لئے اب بھی پندرہ بیس برس تک لگ سکتے ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں ٹیلنٹ اور سیلری کی گروتھ کہیں تیزی سے ہوتی ہے لہذا کیا نوجوان سرکاری ملازمت میں اس لئے آئیں کہ کرپشن سے اخراجات پورے کریں؟

مسئلہ صرف تنخواہ کا نہیں ہے بلکہ عدم تحفظ اورخوف و ہراس بھی ہے۔ اگر آپ محنت کرتے ہیں اور کسی ایک حکمران کی گڈ بکس میں آجاتے ہیں توحکومت تبدیل ہوتے ہی ذلت آپ کا مقدر ہے کیونکہ آپ کو اس حکمران کا وفادار تصور کیا جائے گا۔ دوسرے نیب نے بھی بیوروکریسی میں خوب خوف و ہراس پیدا کیا ہے۔ میرا یہ ہرگزمطلب یہ نہیں کہ افسران کو ٹھیکوں اور ٹینڈروں میں لوٹ مار کی اجازت ہونی چاہئے مگر میرا مطلب یہ ضرور ہے کہ محض الزامات پر کردار کشی کا سامنا کرنے والوں، معطلیاں اورجیلیں برداشت کرنے والوں کی تعداد خوفناک حد تک بڑھتی چلی جا رہی ہے، جو افسران مہینوں اور بسااوقات برسوں کے بعد بے گناہ قرار پائے،ان کی مثالیں فیصلہ سازی کے عمل کو مشکل سے مشکل ترین بنا رہی ہیں

ہماری ملازمتوں کے کچھ گروپ ایسے ہیں جن میں کام کرنے کا واقعی مزا ہے اور ان میں فارن سروس، ڈی ایم جی اور پولیس وغیرہ شامل ہیں لیکن تمام امیدوار فارن سروس جوائن نہیں کر سکتے۔ ڈی ایم جی اور پولیس سروس میں اختیارات اور سہولتیں موجود ہیں مگر انہی اختیارات اور سہولتوں کو ہی گالی بنایا جا رہا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ایک بزرگ سیاستدان سے پوچھا، آپ بیوروکریٹوں کو اتنے بڑے بڑے گھر کیوں دیتے ہیں، جہاں دیدہ اور عمر رسیدہ سیاستدان نے جواب دیا کہ اگر آپ ان کو گھر، ملازم اور’ شوشا ‘بھی نہیں دیں گے تویہ سرکاری ملازمت میں کیا لینے آئیں گے یعنی معاملے کو جاننے اور سمجھنے والے جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اگربڑے افسران کو چھوٹے چھوٹے گھروں اورچھوٹی چھوٹی گاڑیوں میں سختی کے ساتھ رہنے اور چلنے پر مجبور کردیا گیا تو یہ سول سروس کا یہ بحران مزید شدید ہوسکتا ہے۔ مجھے سابق دور میں ایک بریفنگ کو سننے کا موقع ملا تو علم ہوا کہ بہت سارے سرکاری افسران، جو کرپشن سے مال نہیں بنانا چاہتے تھے وہ کارپوریٹ سیکٹرجوائن کر گئے اور جہاں ان کی ماہانہ تنخواہ کئی گنا بڑھ گئی۔

گورننس کے معاملے پر پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہبازشریف کا معاملہ قابل غور ہے۔ الزام ہے کہ انہوں نے من پسند افسران کو بھاری تنخواہیں دیں۔ پانچ، سات لاکھ سے زائد بھاری تنخواہ لینے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے مگر دوسروں کے مقابلے میں کچھ کو تین سے پانچ لاکھ تک اضافی تنخواہ بھی باقیوں سے ناانصافی سمجھی جا رہی ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ شہبازشریف نے ان افسران سے تنخواہوں میں منتھلی نہیں لگوا رکھی ہو گی۔ معاملہ یہ ہے کہ جب آپ کام کرنے اور کام نہ کرنے والوں کو ایک جیسی تنخواہ، ایک جیسی ترقی اور ایک جیسی سہولیات سے نوازیں گے تویہی اصل ناانصافی ہو گی۔ ہر شعبے کی طرح نوکر شاہی میں بھی زیادہ کام کرنے والوں اور بہتر نتائج دکھانے والوں کو اس کا بہتر صلہ ملنا چاہئے مگر یہاں ہم گھوم کے بنیادی سوال پر آجائیں گے کہ کسی بھی فارمولے سے آپ نتائج دکھانے والوں کو جزا دیں گے تو یہ باقی افسر شاہی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی سمجھی جائے گی۔ یہ سوال اپنی جگہ ادھورا ہے کہ کیا آپ سرکاری ملازمین کو کارپوریٹ سیکٹر کی طرح تنخواہیں آفر کر سکتے ہیں اور اگر کر بھی دیں تو کیا آپ پرائیویٹ سیکٹر کی طرح سختی سے کام لے سکتے ہیں؟

یہ ایک بہت پیچیدہ معاملہ ہے جس سے آسانی کے ساتھ نہیں نمٹا جا سکتا مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ آپ اُن افسران سے گھر واپس لے لیں جن کا ذکر آپ تقریروں میں کرتے ہیں، ان کے اے سی بند کر وا دیں اور اپنے لوگوں کو یہ ہدایت بھی کر دیں کہ گاڑیوں کے پرسنل استعمال پر ان کی تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیں تو ان کے ذریعے آپ ملکی بجٹ کا خسارہ دور نہیں کر سکتے کہ ملک کو خسارہ افسروں کے چائے اور بسکٹ کے اخراجات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی کچھ اور مقدس وجوہات ہیں جن کا ذکر وزیراعظم بھی نہیں کر پائے۔ کسی گھر سے کسی ملک تک خسارہ دور کرنے کے دو طریقے ہیں، پہلا طریقہ یہ ہے کہ گھر کے سب لوگ محنت کریں، بے کار لوگوں کو بھی کام پر لگایا جائے،  ان سب کے سامنے ٹارگٹ ہوں جن کا پورا کرنا لازمی ہوں اور یوں آمدن بڑھاتے ہوئے گھر کے اخراجات پورے کر لئے جائیں جبکہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ گھر کی گاڑی بیچ کر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کی جائے۔ مٹن کی جگہ برائلر اور برائلر کی جگہ دال پکائی جائے، ائیرکنڈیشنر بند کر دیا جائے اور اچھے شیمپو سے بال دھونے پر بھی پابندی لگا دی جائے۔ فی الوقت تحریک انصاف کی حکومت اسی دوسرے طریقے سے پیسے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پیسے اس سے بھی بچ جائیں گے مگر مان لیجئے کہ سب سے بہتر طریقہ محنت کرنا اور آمدن بڑھانا ہی ہے۔ آپ جیسے ہی پہلے سے کم تنخواہوں کا شکوہ کرنے والی بیوروکریسی کو کھینچیں گے، بجٹ کا خسارہ تو دور نہیں ہو گا مگر گورننس کے فقدان کا بحران شدید سے شدید ترین ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).