چوہان صاحب کی فیاضیاں اور حکومت کی صفائیاں


آپ سب سے ہم سب کے توسط سے ایک وقفے کے بعد ملاقات ہو رہی ہے۔ کہیے اچھے رہے؟ گھر بار میں سب ٹھیک ٹھاک ہیں نا؟ ڈھائی مہینے کا وقفہ تھا۔ یہاں تو لمحوں میں پیارے بچھڑ جاتے ہیں۔ گئے لوگ لوٹ آتے ہیں۔ ڈھائی مہینے میں تو بہت کچھ بدل گیا۔ سب کچھ دھل گیا۔ بستروں کی چاندنی دھل گئی۔ پرانے برتنوں کی جگہ نئے برتنوں نے لے لی۔ گھروں کے پتے بدل گئے۔ ہماری نوکری بدل گئی۔ سب کچھ نیا ہے۔ سب کچھ جدا ہے۔ آفٹرآل نیا پاکستان ہے یہ۔ کوئی عام بات نہیں۔

جی ہم کیا مصروف ہوئے آپ سب نے پاکستان کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ امید کرتے ہیں کہ پاسپورٹ پر وہی نام رہے گا۔ اور پاکستان کے نام کے ساتھ سفید روشنائی سے چھوٹا سا نیا نہیں لکھا جائے گا۔ نیا پاکستان دل میں کہہ لیجیے نا۔ پاسپورٹ بدل کر کیا ہو گا۔ جیسا کہ ہماری سکونت پنجاب کے شہر لاہور میں ہے جو پہلوٹھی کے کسی لاڈلےفرزند کی طرح کچھ ناز نخرے اٹھوانے کا عادی ہے۔ یہاں حکومتیں بھی ایسی نہیں جنہوں نے لاڈ ہی اٹھائے۔ لاہور قیام پاکستان سے پہلے بھی تہذیب اور تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ فن اور ثقافت کی آبیاری میں اس شہر کا کردار کلیدی ہے۔ لاہور کی فضا بھی اسی نشے سے مخمور رہتی ہے۔ اسی لئے لاہوری جہاں بھی چلے جائیں برا سا منہ بنا کر یہی کہتے ہیں ’لہور لہور اے‘۔

تھیٹر ہو یا فلم، آرٹ ہو یا ادب، لاہور میں ہر قسم کے فنون لطیفہ کی اہمیت سے انکار نہیں۔ اسی لئے یہاں ثقافت کی وزارت بھی خاصی اہم ہے۔ فنکاروں کے حقوق کا پاس رکھنا اسی کا کام ہے۔ لیکن اب پرانی خرمستیاں نہیں چلیں گی۔ اب نیا پاکستان بن چکا ہے لہوریو۔ اب وزیر اعلی بھی مزہ چکھائیں گے اور ثقافت و اطلاعات کے وزیر صاحب بھی۔ پاکستان بھی نیا اور وزارتیں بھی نئی۔

ہمارے صوبائی وزیر ثقافت جناب فیاض الحسن چوہان صاحب ذرا جلالی طبیعت کے واقع ہوئے ہیں۔ جی میں آئے تو چینل والوں کو برا بھلا بول کر اٹھ جاتے ہیں۔ جی میں آئے تو فنکاروں کو ہی حج اور روزے رکھوانا پر مصر ہو جاتے ہیں۔ آخر کو فن اور ثقافت کون سا شریفوں کا کام ہے۔ سنیما گھروں کے باہر لگے فلموں کے پوسٹرز سے وزیر صاحب کی قومی حمیت جاگ اٹھتی ہے۔ لہذا وہ ہر کسی کی موجودگی میں کہہ ڈالتے ہیں کہ جس نے ایسی فحاشی دیکھنی ہو وہ وزیر صاحب کی مجوزہ فلمیں دیکھ لے جو عوام کی سہولت کےکیے باآسانی دستیاب ہیں۔

جیسا کہ ان کے وفاقی ہم۔ منصب فواد چوہدری صاحب کا کہنا ہے کہ چوہان صاحب دل کے برے نہیں۔ عوامی احتجاج کے بعد ان کا اچھا دل پسیجا اور انہوں نے جھٹ معافی مانگ لی۔ اپنے ڈرائیور کے ساتھ کھانا کھایا۔ ویڈیو بھی بنوا لی تاکہ سند رہے اور طاقت ضرورت کام آئے۔

ابھی کل ہی ان کا ایک اور بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار عارف علوی صاحب ’دہی بھلے والے صدر‘ سے بہتر ہیں۔ دل تو دکھا لیکن پھر یہ سوچا کہ جنہیں اپنی ہی وزارت میں فنکار رذیل اور بے توقیر لگتے ہیں انہیں دہی بھلے بیچنے والے کیوں نہ کمتر لگیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان بیانات سے قبلہ چوہان صاحب نے اپنی ہی حیثیت گرائی ہے۔ نرگس، میگھا اور دہی بھلے بیچنے والوں کا رتبہ ہماری نظروں میں اور بڑھا دیا ہے۔

باقی حکومت سے استدعا ہے کہ چوہان صاحب کی اطلاعات سے عام جنتا کو محفوظ رکھا جائے۔ یا اگر مناسب سمجھا جائے تو انہیں اکیلے کمرے میں کچھ سمجھا دیا جائے کہ مرشد ہن او گلاں نئیں رہیاں (مرشد اب وہ بات نہیں رہی)۔ سمجھ جائیں گے۔ آپ لوگ روز روز ان کی صفائیاں پیش کریں گے یا نیا پاکستان چمکائیں گے؟ ابھی کرنے کا بہت کام پڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).