یوم دفاع اور سقوط ڈھاکہ


6 ستمبر ہماری تاریخ کا یادگار دن ہے۔ اس دن 1965 میں انڈیا نے رات کے اندھیرے میں لاہور پر حملہ کر دیا۔ انڈیا کی فوج ہم سے کئی گنا زیادہ تھی۔ وسائل اور اسلحہ کی اسے کمی نہیں نہیں تھی لیکن جوش و جذبہ سے عاری اس فوج کو علم نہیں تھا کہ پاکستان کے پاس اپنے دفاع کے لئے میجر عزیز بھٹی اور ایم ایم عالم جیسے جانباز سپاہی موجود ہیں جو اپنے مادر وطن کے لئے جان کی قربانی دے سکتے ہیں۔ انڈیا کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ جوانوں اور افسروں نے سر دھڑ کی بازی لگائی اور پاکستان کو نا قابل تسخیر بنا ڈالا۔
ان دنوں ایوب خان کی مرشل لا آمریت کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ خود ہی فیلڈ مارشل بن بیٹھے تھے۔ اپنا ہی آئین بنایا ہوا تھا۔ جنگ میں شکست کو مد نظر رکھتے ہوے انڈیا نے بین الاقوامی مدد کی درخواست کی۔ روس کے شہر تاشقند میں ایوب خان اور انڈین وزیر اعظم شاستری میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا جسے تاریخ نے اعلان تاشقند کا نام دیا۔ کہتے ہیں کہ جنگ بندی کے معاہدے سے جو کہ انڈیا کے لئے خلاف توقع تھا شاستری خوشی کے مارے وفات پاگیا۔

ایوب خان کا دور پاکستان میں شخصی آزادی کا بد ترین دور تھا جمہوریت کا گلا اتنا تنگ کیا گیا کہ سانس لکنا دشوار ہو گیا۔ قیام پاکسان اور تحریک پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں اور سیاسی لیڈروں کو چن چن کر راستے سے ہٹایا گیا۔ بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو بھی نہ بخشا۔ دوسری طرف جس صنعتی انقلاب کی داغ بیل ڈالی گئی اس نے بائیس امیر ترین خاندان پیدا کئے جو کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ ایوب خان کے خلاف ملک کے دونوں حصوں میں جمہوریت بحالی تحریک شروع ہو گئی۔ انڈیا کو موقع ملا ۔اس نے مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک شروع کر دی۔ پاکستان کی ناقص حکمت عملی نے انڈیا کو موقع فراہم کیا اور اس نے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوے مشرقی پاکستان پر اپنی فوج چڑھا دی۔ پاکستانی فوج کی سپلائی لائن کٹ چکی تھی۔ جنگی وسائل محدود تھے۔ مشرقی پاکستان کے عوام مکتی باہنی کے پروپیگنڈے کے زیر اثر تھے۔ صرف تیرہ دن کی جنگ کے بعد پاکستانی فوج کے مشرقی کمانڈر جنرل اے کے نیازی کی کمان میں ایک لاکھ فوج کے ساتھ ہتھیار ڈال دئیے۔ تاریخ اس شکست کو سقوط ڈھاکہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ انڈیا مغربی پاکستان کے بھی ہزاروں مربع میل پر قابض ہو گیا۔ شملہ معاہدے کے نتیجے میں ہم نے اپنا علاقہ واگزار کروایا۔ ایک لاکھ جنگی قیدی واپس آئے۔ قوم نے کچھ سکون کا سانس لیا۔

صرف پانچ سال سکون سے گزرے ۔ایک بار پھر جمہوریت کا گلا گھونٹ کر مارشل لا لگا دیا گیا۔ جیلیں اور کوڑے سیاسی کارکنوں کا مقدر ٹھریں۔ افغان وار میں پاکستان کی دخل اندازی نے وقتی طور پر پاکستان کو دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کی صف میں لا کھڑا کیا مگر کمزور حکمت عملی اور عالمی سازشوں نے پاکستان کو مستقل طور پر وار زون میں لا کھڑا کیا جس سے ہم آج تک نکل نہیں پائے۔ اس مصیبت سے جان چھڑانے کے لئے ہماری افواج کئی اپریشن کرچکی۔ ہزاروں جانوں کا نذرانہ بھی اس مصیبت سے ہمیں نجات نہیں دلا سکا یہ جنگ جاری ہے۔ ہم ابھی حالت جنگ میں ہیں۔

زندہ قومیں اپنی کامیابیوں کا جشن منایا ہی کرتی ہیں۔ اس طرح قوم کا مورال بلند رہتا ہے۔ ہم بھی چھ ستمبر یوم دفاع اسی لئے مناتے ہیں۔ اس دن پریڈ ہوتی ہے۔ صدر مملکت کا خطاب ہوتا ہے۔ جنگی ترانے بجاے جاتے اور جیت کے گیت گائےجاتے ہیں۔ لیکن زندہ قومیں جہاں اپنی کامیابیوں کے جشن مناتی ہیں وہاں اپنی ناکامیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتیں بلکہ ناکامیوں کے اسباب تلاش کرتی اور ان کے سد باب کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ ہم چھ ستمبر جوش وخروش سے مناتے ہیں مگر سقوط ڈھاکہ جیسے اندوہناک سانحے کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا نئی نسل کو پوری طرح علم ہے کہ کبھی بنگلہ دیش پاکستان کا صوبہ ہوا کرتا تھا وہ کیوں اور کیسے ہم سے الگ ہوا۔ کیا ہم نے کارگل وار کی ناکامی کے اسباب پر غور کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔

اس بار بھی ہم چھ ستمبر اسی طرح منایئں گے ماضی کی طرح۔ اس بار البتہ پہلی دفعہ عسکری قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شہدا کے گھروں میں جا کر ان کے اہل خانہ کو حوصلہ دیا جائے۔ ان کو یقین دلایا جائے کہ ان کے شہید پوری قوم کے محسن ہیں۔ اور پوری قوم ان شہدا کے احسان تلے دبی ہوئ ہے جنہوں نے قوم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یوم دفاع منانے کا یہی درست طریقہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).