نواں پاکستان اتنی دیر ہے جتنی دیر کپتان فیصلوں پر قائم ہے


احمدی حضرات کو ان کے سابق یا موجودہ خلیفہ نے کہہ رکھا ہے کہ وہ جب پاکستان واپس آئیں گے تو سمبڑیال سیالکوٹ ائر پورٹ پر اتریں گے۔ پتہ نہیں کس موڈ میں انہوں نے کہا کوئی سیالکوٹ سے ان کے لوگ ان سے ملنے آئے تھے یا ویسے ہی کہا۔ البتہ جب ایسا کہا، کہتے ہیں تب سیالکوٹ میں کوئی ائرپورٹ نہیں تھا۔

یہ کافی بعد میں نجی شعبہ نے تعمیر کیا، جب بنا تو سب سے بڑا رن وے اسی ائرپورٹ کا تھا۔ بناتے وقت ہلکا پھلکا سا مسئلہ اس لینڈنگ کا بھی زیر بحث آیا۔ وطن عزیز میں احمدی حضرات چنیوٹ سے باہر درجنوں کے حساب سے سیالکوٹ ناروال میں بھی موجود ہیں۔

نوجوت سنگھ سدھو نے کپتان کو جو چھکے چوکے مارے تھے کپتان کو سب یاد تھے۔ جب کپتان وزیر اعظم بنا تو اس نے سدھو کو تقریب میں بلا لیا کہ تو وزیر بنیا تے لے فیر میں وزیر اعظم بن گیا۔ اب بول۔

باجوہ صاحب نے سدھو کو جپھا ڈالتے ہوئے کرتار پور کا باڈر کھولنے کی خوشخبری دے دی۔ سدھو چھلانگاں مارتا بھارت گیا۔

کرتار پور باڈر سے جب سردار ہزاروں کی تعداد میں اپنے پہلے گرو کی قبر پر پاکستان آنا چاہیں گے۔ ان کےجذبات کی سمجھ آتی ہے کہ ہم مذہبی جذبات کو کچھ زیادہ ہی سمجھتے ہیں۔ کرتار پور باڈر سے بھارت کی طرف قادیان بھی کوئی زیادہ دور نہیں ہے۔

قادیان کا اتنا نزدیک ہونا بھی اک وجہ تھی جس کی وجہ سے یہ باڈر آج تک نہیں کھولا گیا تھا۔ سردار وہاں سے آئیں تو یہاں سے بھی لوگ وہاں اپنی مذہبی عقیدت کا اظہار کرنے کو جانے کے لیے اصرار یا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

اب اگلی بات بلکہ سازشی بات اور وہ بھی عالمی سازش۔

جنہیں پتہ ہے انہیں پتہ ہے کہ پاکستان بھارت کے بیک چینل مذاکرات میں سہولت کاری میں کافی کردار احمدی حضرات کا بھی ہے۔ نہیں ماننا نہ منو۔ تسلی کرنی ہو تو بھاگ کر پیر صلاح الدین کے پاس جائیں ان سے پوچھیں کہ حزب المجاہدین نے وادی میں پہلا سیز فائر کیسے کیا تھا۔

میمو گیٹ والے منصور اعجاز تب بل کلنٹن کے دوست ہوا کرتے تھے۔ تعلق ان کا احمدی کمیونٹی سے تھا انہوں نے اپنی امی کے ہمراہ عبدالمجید ڈار سے رابطہ کر کے انہیں اک مختصر سیز فائر پر راضی کیا اور حزب المجاہدین کی پاکستان میں موجود قیادت کے لیے پریشان کن صورتحال پیدا کر دی۔

وہ ایسے کہ تنظیم کا آپریشنل کمانڈر بغیر قیادت کو اعتماد میں لیے سیز فائر کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس کو پھر بڑے طریقے سے سنبھالا گیا۔
یہ بس اک مثال ہی دی ہے کہ احمدی حضرات پاک بھارت معاملات میں سرگرم ہیں۔ ان کے سرگرم ہونے کی اک وجہ ہے جو سمجھ بھی آتی ہے۔ ان پر عالمی کمیونٹی اعتبار زیادہ کرتی ہے۔

اعتبار کرنے کی وجہ بہت سادہ ہے۔ اس کمیونٹی کا سروائیول ہی امن میں ہے۔ جب کوئی بھی اپنے وطن کے اندر کمزوری محرومی محسوس کرے گا۔ وہ پھر طاقتور حلیف باہر ہی ڈھونڈے گا۔ کمزور ہی امن کا سب سے بڑا چاہنے والا بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ تب ہی سکون سے رہ سکوں گا اگر میرے ملک میں امن ہو گا۔ شہری حقوق برابر ہوں گے۔ قانون کی حکومت ہو گی۔

بتائیں یہ ساری سازشی باتیں جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ پہلے سن رکھی ہیں۔ آپ کو کشمیر سیز فائر کی کہانی معلوم تھی؟ پاکستان بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔ یہ ایٹمی پاکستان ہے۔ دنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتا ہے، آئی ایس آئی بھی۔ یہاں عدالتیں وزیراعظم کو گھر بھیج دیتی ہیں۔

یہاں سیاسی جماعتیں ان کے کارکن آمروں کا جیون حرام کر دیتے ہیں۔ صحافت جتنی بھی ڈھیلی ماٹھی ہے کسی بھی حکومت کا جلوس نکالنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ لوگ زیادتی پر ہتھیار اٹھا لیتے ہیں پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں۔ لڑ مرتے ہیں۔ کوئی بھی سازش ہمارا کیا بگاڑ سکتی ہے؟

حوصلہ رکھیں، سمجھیں سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں موجود پارسی ذکری کیلاشی اپنے عقائد پر قائم ہیں۔ اسی مٹی سے اٹھے ہیں۔ انہوں نے عقیدہ نہیں بدلا نہیں ڈرتے کسی سے۔ ہم آپ تو اکثریت ہیں۔ ہم زیادہ ہو کر کس بات سے گھبراتے ہیں؟ اس طرح سوچ کر دیکھیں شاید کچھ شرم آوے، چھوڑیں مت شرمائیں۔

یہ مذہبی پوسٹ ہرگز نہیں ہے۔ مہربانی کر کے اس کو عقائد عقیدت سائیڈ پر رکھ کر پڑھیں۔ صرف صورتحال سمجھیں اس کی نزاکت اس مشکل پر غور کریں۔ موڈ خراب ہو رہا تو اک لطیفہ کسی سے سن لیں وہی سپاہی بھرتی اور بندوق چلوانے والا۔ یاد آیا سمائیل آیا تو چلیں پھر سے مشکل باتیں کرتے ہیں۔

ہم نے حال میں ہی دیکھا کہ کیسے باجوہ صاحب کی تعیناتی پر شور اٹھا۔ پاکستان کے طاقتور ترین عہدے پر فائز ہونے کے باوجود انہیں اپنے عقائد کے حوالے سے وضاحت بھی دینی پڑی۔ ہمیں پھر ان کی پیروں کے ساتھ اکثر تصاویر بھی دیکھنے کو ملتی رہیں۔

مسلم لیگ نون ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کا الزام لے کر اپنی سیاست گل کر بیٹھی۔ اس کے لیڈروں کو جوتے پڑ گئے اور وزیر داخلہ کو گولی وج گئی، شکر ہے کہ بچ گئے۔ بعد میں جیت بھی گئے۔

کپتان نے عاطف میاں کو اپنی مشاورتی کونسل میں شامل کر کے ایک بہت تگڑا پیغام دیا ہے۔ وہ جتنی دیر اس تعیناتی پر قائم رہ گیا اتنی دیر کے لیے دنیا کو بتا دے گا کہ یہ نیا پاکستان ہے جہاں لیڈر اپنے فیصلے پر کھڑا ہے۔ اس نے شخصی عقائد کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے میرٹ پر صلاحیت کی قدر کی ہے۔

کپتان سے اس تعیناتی پر کھڑے رہنے کی امید کرنا۔ ۔ ۔ یہ توقع بہت زیادہ ہے۔ باجوہ صاحب اک مشکل سے گزرے، نوازشریف اس کا سامنا نہ کر سکے۔ پھر بھی پاکستان کو تو آگے جانا ہی ہے۔ ہمیں اک دن شہریوں کا برابری کا حق تسلیم کرنا ہے۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جس نے اپنے ہی لوگوں کے حقوق سے انکار کر کے ترقی کی ہو دنیا کی قیادت کی ہو۔

ریاست مدینہ جس کی ہمیں مثالیں دی جاتی ہیں۔ وہاں سے نکل کر دنیا بھر میں مسلمان چھا ہی اس لیے گئے تھے کہ تب مسلمان ریاست ہر مسلم اور غیر مسلم شہری کا حق اور میرٹ تسلیم کرتی تھی۔ یہ حق تب ہم نے متعارف کرایا تھا۔ آج اس کا دفاع کرتے بولتے اس پر عمل کرتے گھبراتے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi