پیار کا پہلا شہر اور میری چائے


دنیا میں آئے بائیس سال ہو گئے اور مستنصر حسین تارڑ کو اب پڑھا!؟ اوہ! یہی افسوس کرتے میں نے چائے کا ایک اور کپ بنایا اور اس شاہ کار ناول کے بارے میں لکھنے بیٹھ گئی۔ میرے لیے یہ ناول آغاز ہی سے دل چسپی کا باعث بن گیا، جب مجھے پتا چلا کہ پاسکل اپاہج ہے؛ واقعہ یہ ہے، کہ ان دنوں میرا ہاتھ بھی زخمی تھا اور میں سارے کام ایک ہاتھ سے کر رہی تھی۔ خیر! پیار کا پہلا شہر ڈاؤن لوڈ کیا؛ چائے بنائی اور پڑھنے بیٹھ گئی۔ میرے چائے ٹھنڈی پڑ گئی تھی کیوں کہ یا تو میں ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑ کر چائے کی چسکیاں لے سکتی تھی یا پھر ہاتھ میں سیل فون پکڑ کر ناول پڑھ سکتی تھی۔

پاسکل اور سنان کی محبت کا آغاز تھا اس لیے میں اس کا مزہ چائے کے ساتھ لینا چاہتی تھی۔ خیر موبائل فون کو تکیے کے ساتھ لگایا، ہاتھ میں چائے پکڑی اور پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک ہینڈ سم لڑکے کو اپاہج لڑکی سے محبت؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ یا شاید آخر میں دونوں مل جائیں، کیوں کہ ناولوں کی کہانی کا انجام عموما یہی ہوتا ہے۔ اپنے اندازے لگاتی جاتی، اور ساتھ ساتھ پڑھتی رہی۔ ’پیار کا پہلا شہر‘ کی ایک خاص بات کہ یہ دو کرداروں کے گرد گھومتا رہا۔ اس میں مجھے اتنا خاص تیسرا کردار نظر نہیں آیا۔

ناول پڑھنے کے ساتھ ہی دل میں خواہش جاگی کہ کم از کم مجازی خدا (جس کا تا حال کچھ معلوم نہیں کہ کہاں ہے) کے ساتھ ایک بار تو پیرس کی گلیوں میں گھومنا چاہے۔ ایفل ٹاور کے سایے تلے مجبت کے دو بول بولنے چاہیے۔ دریائے سین کے کنارے دنیا سے بے اختیار ہو کر چند لمحے سکون کے گزارنے چاہیے۔ لیکن پھر اس بد خیال نے دل کو آ لیا، کہ پیرس کی لڑکیاں تو مشرقی لڑکا دیکھ کر پاگل ہو جائیں گی اور یہ بلا ہم سے کہاں برداشت ہونی، سو دوبارہ ناول کہ طرف دھیان لگایا۔

پتا نہیں کیوں پاسکل اور سنان کی کہانی میں کھو کر میں اپنی دنیا ایجاد کرنے لگ جاتی تھی۔ شاید یہ ناول پڑھنے والے ہر قاری کا یہی حال ہوتا ہو گا۔ چوں کہ سنان سیگرٹ سلگا چکا تھا اس لیے میرا بھی چائے کا ایک اور کپ تیار تھا۔پاسکل مغربی لڑکی تھی اس لیے محبت کا اظہار کھل کر کر رہی تھی۔ سنان مشرقی ہونے کی اداکاری کر رہا تھا یا پھر وہ جانتا تھا کہ وہ اور پاسکل ایک نہیں ہو سکتے۔ لہذا اسے پیار کی امید نہیں دلانی چاہیے ورنہ اس کے اندر احساس محرومی بڑھ جائے گا۔

ذہن میں ایک سوال آیا کہ اگر کسی انسان میں کمی ہے کوئی تو کیا وہ محبت نہیں کر سکتا؟ جواب ملا اسے اسی سے محبت کرنی چاہیے جو اسے چاہتا ہو۔ ایسے لوگ خود سے کسی کو چاہ بھی نہیں سکتے۔ لیکن سنان اور پاسکل تو ایک دوسرے کو چاہتے تھے، پھر کیا مسئلہ ہے؟ مسئلہ سب سے بڑا تھا۔ وہ غیر مسلم تھی وہ پاکستانی نہیں تھی۔

جب پاکستان میں دو لوگ اس لیے ایک نہیں ہو سکتے کہ ان کی ذات مختلف ہے تو یہ تو اس کے آگے بہت چھوٹی سی کہانی ہے۔ کیا محبت کی حدود ہوتی ہیں؟ کیا سرحد پار بیٹھے شخص سے محبت نہیں کی جا سکتی؟ کیا دو الگ الگ ذات رکھنے والے ایک نہیں ہو سکتے؟ ایک پاکستانی مرد کے لیے اپنی محبت یعنی کہ لڑکی سے ضروری دیگر رشتے اور رسم و رواج کیوں ہوتے ہیں؟ عورت کو مکمل طور پر کیوں نہیں چاہا جا سکتا؟ سنان نے پاکستان واپس جانے کا فیصلہ بالکل ٹھیک کیا۔

میری سوچ بھی سنان کے ساتھ ساتھ پاکستان واپس جانے کو تیار تھی، سچ تو یہ ہے کہ میں پورے پیرس میں سنان کے ساتھ گھومتی رہی۔ مین نے پاسکل کے بنے سینڈوچ بھی انجوائے کیے۔ اس کے پاکستانی جھمکوں کی بھی تعریف کی اور سنان کو تو دل ہی دل میں کچھ کہے جا رہی تھی۔ سنان جب جب سیگرٹ سلگاتا مجھے چائے کی طلب ہوتی۔ وہ پاکستان جا رہا تھا۔ پیار کے پہلے شہر میں چائے کا یہ میرا آخری کپ تھا۔

پاسکل اسٹیشن پر سنان کو آوازیں دے رہی تھی. پاسکل لنگڑاتی ہوئی سنان کی جانب بھاگ رہی تھی، وہ اسے اس اذیت سے آزاد کرنا چاہتا تھا لیکن نہیں کر پایا۔ گاڑی بہت دور نکل گئی۔ پاسکل بے حس و حرکت پڑی تھی، اور آہستہ آہستہ اس کا چہرہ سرخ کوٹ میں مدغم ہو گیا۔ یہ رات کی تاریکی میں ایک نکتے کی صورت اختیار کر گیا، جو بالآخر سنان کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔ چائے کی آخری چسکی باقی تھی اس سوچ کے ساتھ کہ محبت پانی ہے تو اپنی ذات میں رہ کرو۔ محبت نہ ملے تو اس سے اذیت ناک چیز کوئی نہیں اور اگر مل جائے تو دریائے سین کے کنارے ملنے والا سکون بھی اس کے آگے کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).