سگمنڈ فرائڈ کے بتائے ہوئے ذہنی بلوغت کے راز


کیا آپ نے کبھی انسانی نفسیات کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ نجانے کتنے لوگ جسمانی طور پر بالغ ہونے کے باوجود ذہنی طور پر نابالغ ہیں؟ ایسے لوگ خود بھی نفسیاتی مسائل کا شکار رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ پچھلی دوصدیوں میں بہت سے ماہرینِ نفسیات نے اپنے علم اور تحقیق سے ہماری رہنمائی کی کہ ہے کہ ہم انسانی نفسیات اور ذہنی بلوغت کے راز جانیں تا کہ ہم ذہنی طور پر صحتمند، بامعنی اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔

اس کالم میں میں سگمنڈ فرائڈ کے چند تصورات کا ذکر کروں گا تا کہ آپ کا اس وسیع موضوع سے تعارف ہو سکے اور آپ ان خیالات سے استفادہ کر سکیں۔ اگر آپ کے والدین اور اساتذہ نے آپ کا ذہنی صحت سے تعارف نہیں کروایا تو آپ اب بھی اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا کر بہتر انسان بن سکتے ہیں اور صحتمند زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہم سب مرتے دم تک کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں اور بہتر انسان بننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

سگمند فرائڈ نے اپنے چالیس برس کے پیشہ ورانہ تجربات کی بنیاد پر انسانی نفسیات کے جو راز جانے ان میں سے ایک راز یہ ہے کہ انسانی ذہن میں لاشعور شعور سے بہت بڑا ہوتا ہے لیکن مخفی رہتا ہے جو خوابوں میں ہم پر منکشف ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ لاشعوری محرکات کی وجہ سے زندگی کے اہم فیصلے کرتے ہیں جن میں سے بعض نادانی کے فیصلے ہوتے ہیں اور بعض دانائی کے۔

فرائڈ کا کہنا تھا کہ جب انسان کسی تجربے یا مشاہدے سے بہت پریشان ہوتا ہے تو اس کا شعور اس تکلیف دہ تجربے کو لاشعور میں دھکیل دیتا ہے۔ فرائڈ اس عمل کو REPRESSION کا نام دیتا ہے۔ یہی لاشعور کے پریشان کن تجربات بہت سے نفسیاتی مسائل کی صورت اپنا اظہار کرتے ہیں جن میں ANXIETY AND DEPRESION سرِ فہرست ہیں۔ فرائڈ نے نہ صرف نفسیاتی مسائل کی تشخیص کی بلکہ ان کا علاج بھی دریافت کیا۔

فرائڈ کے علاج کا نام تحلیلِ نفسی رکھا گیا جس میں نفسیاتی معالج مریض کی مدد کرتا ہے کہ وہ لاشعور سے مسائل کو دوبارہ شعور میں لائے اور ان مسائل کا حل تلاش کرے۔ اس عمل سے وہ اپنی نفسیاتی گتھیوں کو سلجھاتا ہے اور ایک صحتمند زندگی گزارنے کے قابل ہوتا ہے۔ فرائڈ کے یہ خیالات، تصورات اور نظریات انسانی نفسیات کے علم میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئے جن سے نفسیات نے ہی نہیں سماجیات اور فنونِ لطیفہ نے بھی استفادہ کیا۔

فرائڈ کی تحقیق نے انسانوں پر ان کی شخصیت کے وہ گوشے منکشف کیے جن سے وہ پہلے واقف نہ تھے۔
فرائڈ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ انسان بچپن سے جوانی تک نفسیاتی طور پر کن مدارج سے گزرتا ہے اور زینہ بہ زینہ کون سی بلوغت کی منزلیں طے کرتا ہے۔ فرائڈ نے نشاندہی کی کہ بعض لوگ جسمانی طور پر بالغ ہونے کے باوجود ذہنی طور پر نابالغ ہی رہتے ہیں۔ فرائڈ نے ذہنی بلوغت کے مدارج اور DEFENCE MECHANISMSکی نشاندہی کی۔ یہ موضوع بہت وسیع ہے لیکن میں یہاں چند IMMATUREاور چند MATURE نفسیاتی حفاظتی تدابیر کا ذکر کروں گا تا کہ آپ کو انسان کی ذہنی صحت اور بلوغت کی درجہ بندی کا اندازہ ہو سکے۔

نابالغ حفاظتی تدابیر میں سے ایک MAGICAL THINKING ہے۔ اس سوچ میں انسان اپنے مسائل کا حقیقت پسندانہ حل تلاش کرنے کی بجائے تصور کی دنیا میں جادوئی حل تلاش کرتے ہیں۔ جب میں پشاور کے زنانہ ہسپتال میں کام کرتا تھا تو میری کئی جوڑوں سے ملاقات ہوئی جن کے ہاں بچے پیدا نہ ہوتے تھے اور وہ اپنے مسئلے کا علاج گنڈے تعویز سے کرتے تھے۔ آخر جب وہ ہمارے INFERTILITY CLINIC آئے تو ہم نے ٹیسٹ کیا تا کہ جان سکیں کہ شوہر کے SPERM میں خامی ہے یا بیوی کے OVUM میں۔ مسئلے کی تشخیص کے بعد ان کا علاج کیا گیا۔

بعض معاشروں کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ اگر بچہ پیدا نہ ہو تو اس کا ذمہ دار عورت کو ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ شوہر کا ٹیسٹ کیے بغیر بعض دفعہ شوہر کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دوسری شادی کر لے۔ کسی بھی انسان کا اپنے جسمانی اور ذہنی، سماجی و معاشی مسائل کا پیروں فقیروں کے گنڈا تعویز سے حل تلاش کرنا MAGICAL THINKING کی ایک مثال ہے۔

ایک اور نابالغ نفسیاتی طریقہ ACTING OUT کہلاتا ہے۔ اس میں اگر دو انسانوں میں ناراضگی ہو جائے تو بجائے اس مسئلے کو پر امن مکالمے سے حل کیا جائے جو ایک صحتمند طریقہ ہوگا، نفسیاتی مسئلے کا شکار اپنے غصے کا اظہار معاشرے میں کرتا ہے، وہ شخص بازار میں جا کر کسی اجنبی سے لڑتا ہے بلکہ توڑ پھوڑ بھی کرتا ہے۔ وہ نوجوان جو گھروں میں ماں باپ سے ناراض ہوتے ہیں لیکن بازاروں میں دوسروں کی گاڑیوں کے شیشے توڑتے ہیں اسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں۔

نابالغ طریقوں کے مقابلے میں بالغ طریقوں میں سے ایک حسِ ظرافت ہے۔ فرائڈ HUMOR کو بہت پسند کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مزاح تخلیق کرنے والا انسان دوسروں کا دل دکھائے بغیر اپنے موقف کا اظہار کرتا ہے اور زندگی کی کھٹاس میں مٹھاس کا اضافہ کرتا ہے۔ اس صحتمند طریقے سے سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔

فرائڈ نے ایک اور صحتمند طریقے کی نشاندہی کی جو SUBLIMATION کہلاتی ہے۔ اس طریقے میں انسان اپنی جارہیت کے جذبات کا ایک صحتمند اور اپنے معاشرے میں معزز طریقہِ اظہار تلاش کرتا ہے۔

میرے ایک مریض کو تیز گاڑی چلانے کا بہت شوق تھا وہ سپورٹس گاڑیاں خریدتا اور چلاتا تھا لیکن اسے یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے یا پولیس نہ پکڑ لے۔ تھیریپی کے بعد وہ ایمبولنس ڈرائیور بن گیا۔ اب وہ گاڑی بھی تیز چلاتا ہے اور مریضوں کی خدمت بھی کرتا ہے، یہ سبلیمیشن کی ایک مثال ہے۔

محمد علی کلے جب بچہ تھا تو وہ کافی دبلا پتلا نحیف و ناتواں تھا۔ اس پر گورے بچے ظلم و زیادتی کیا کرتے تھے۔ ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ میں باکسر بنوں گا اور سب گوروں کو ہراؤں گا۔ چنانچہ محمد علی کلے کا ہیوی ویٹ باکسر بننا فرائڈ کی سبلیمیشن کی ایک عمدہ مثال ہے۔

اسی طرح اگر کسی شخص کو بحث و مباحثے کرنے کا بہت شوق ہے تو اسے ہر محفل میں دنگا فساد کرنے اور سوشل میڈیا پر تلخ کلامی کرنے کی بجائے وکیلِ صفائی بننا چاہیے تا کہ وہ عدالت میں محروموں، مجبوروں اور مظلوموں کی خدمت کر سکے۔

جس طرح افراد ذہنی بلوغت کے زینے طے کرتے ہیں اسی طرح قومیں بھی سماجی ارتقا کی منازل طے کرتی ہیں۔ نابالغ قومیں خون آلود جنگ و جدل سے اور بالغ قومیں اپنے مسائل پرامن مکالمے سے حل کرتی ہیں۔ BULLETS سے BALLOTS کا سفر ارتقا کا سفر ہے۔ اسی طرح شہنشاہیت اور آمریت سے جمہوریت کا سفر بھی انسانی شعور کے ارتقا کا آئینہ دار ہے۔ یونانیوں نے نہ صرف انسانیت کو جمہوریت سے بلکہ اولمپکس کے کھیلوں سے بھی متعارف کروایا تا کہ مختلف قومیں میدانِ جنگ میں خون بہانے کی بجائے کھیل کے میدان میں اپنی جارہیت کا صحتمند اظہار کریں۔ اولپمپس کے کھیلوں سے قومیں اپنے شدت پسند جذبات کا اظہار ہی نہیں بلکہ دوسروں کو محظوظ بھی کرسکتی ہیں۔

فنونِ لطیفہ بھی انسان کی سفلی جذبات کا تخلیقی اظہار ہے اور سبلیمیشن کی ایک مثال ہیں۔ بالغ قومیں اپنے بچوں کی تربیت میں فنونِ لطیفہ کا خاص خیال رکھتی ہیں تا کہ قوم کے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی بروقت تربیت ہو سکے اور وہ قوم کے شعور کے ارتقا میں اہم کردار ادا کر سکیں۔

جب ہم ساری دنیا کے انسانوں کا بنطرِ غائر جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے انسانیت اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے بھی پوری طرح ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوئی اور کئی حوالوں سے ابھی تک نابالغ ہے۔

اب جبکہ فرائڈ جیسے ماہرینِ نفسیات کی تحقیق سے ہم انسانی ذہن اور نفسیات کے رازوں سے واقف ہوتے جا رہے ہیں ہم اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں تا کہ ہم جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ ذہنی اور سماجی بلوغت کی منازل بھی طے کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں۔ اس پر غور کریں اور ایک صحتمند اور خوشحال زندگی گزاریں۔ اس سے نہ صرف ہم ایک پرسکون اور بامعنی زندگی گزار سکیں گے بلکہ اپنے دوستوں عزیزوں اور رشتہ داروں کی مدد بھی کر سکیں گے۔ سقراط فرمایا کرتے تھے
UNEXAMINED LIFE IS NOT WORTH LIVING
خوشحال زندگی گزارنا ہم سب کا پیدائشی حق ہے اور صحتمند معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنا ہم سب کی انفرادی اور سماجی ذمہ داری ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail