درس گاہوں میں جنسی ہراسانی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟ 


ضلعہ نوابشاہ، جس کا پیپلز پارٹی کے دور حکومت 2008۔ 2013ع میں نام بدل کر شہید بینظیر آباد اسی لیے رکہا گیا تھا کہ، مسلمان دنیا کی پہلی خاتون، مشرق کی بیٹی، محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا وہ سسرال کا شہر ہے۔ وہ دفن تو اپنے ابا و اجداد کے قبرستان گڑھی خدا بخش بھٹو میں ہے، جو کی لاڑکانہ ضلعہ میں ہے، پر ان کے شوہر، سابق صدر اور شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف زرداری کا تعلق نوابشاہ سے ہے۔ جہموریت کی بقا کی خاطر دشمن قوتوں سے ڈٹ کے مقابلا کرنے والی، وادی مہران کی شہزادی، عورتوں کے حقوق کے لیے با اثر کردار ادا کرنے والی، اور تعلیم کو زندگی کا ضروری عنصر سمجھنے والی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی نام سے ہی نوابشاہ جنرل یونیورسٹی منسوب کی گئی ہے، ایک ایسی تعلیمی درسگاہ جس کا نام ہی پاکستان کی بہادر شہید بیٹی کے نام سے منسوب ہے۔ وہاں سے ہی ایک انتہائی افسوس ناک خبر ان دنوں سندھِی میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔

حال ہی میں شہید بینظیر بھٹو جنرل یونیورسٹی نوابشاہ کی ایک نوجوان طلبہ میڈیا کے سامنے تب ظاہر ہوئی جب اسے کوئی اور راستہ نظر نہ آیا۔ شعبہ انگریزی کی آخری سال میں پڑھنے والی، بیچلر کی ڈگری ہاتھ میں پکڑنے کی منتظر، روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والی فرزانہ جمالی نامی لڑکی نے یہ فریاد کی ہے کہ، یونیورسٹی کا وائیس چانسلر ارشد سلیم اور شعبہ انگریزی کا پروفیسر عامر خٹک اسے جنسی طور پہ ہراساں کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی دھمکیاں دی ہیں۔ وہ اس یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ، اگر اس نے زبان کھولی تو اسے امتحانات میں کم نمبر دے کہ فیل کر دیا جائے گا۔ نوابشاہ شہر کی پریس کلب پہ، گھبرائے اور سہمی ہوئی، آنکہوں میں نمی لیے فرزانہ جمالی نے اپنا دکھڑا سناتے ہوئے مزید کہا کہ، اب وہ اور پڑھ نہیں سکے گی، اور اپنے نامکمل تعلیم وہ آدھے میں چھوڑ رہی ہے۔

ایک اعلی تعلیم دینے والی یونیورسٹی کی طالبہ کے یہ الزامات اور باتیں قطئی طور پہ معمولی اور غیر اہم نہ تھی۔ بات جوں ہی میڈیا پہ آئی تو سوشل میڈیا، جیسے کہ فیس بک اور ٹوئیٹر پہ ہر کسی کی ہمدردی والی پوسٹ آنا شروع ہوگئی۔ یوں نظر آر ہا تھا کہ ہر کوئی فرزانہ کو انصاف دلانے کا خواہاں ہے۔ فرزانہ جمالی کہ ساتھ ہونے والے واقعہ کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان نے نوٹس لیتے ہوئے فرزانہ کے پاس پہنچ کر اس کو اجرک پہنایا۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے فرزانہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا، اور سندھیانی تحریک نے بھی بھرپور ساتھ دینے کا یقین دلایا۔ سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، یہاں تک کہ کراچی پریس کلب میں بھی یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف مختلف تنظیموں کی جانب سے آواز اٹھانے کا کہا جا رہا ہے، بات ابھی یہاں تک نہیں رکی، بلکہ مسلم لیگ فنکشنل کی ایم پی ای نصرت سحر عباسی نے تو سندھ اسمبلی تک بات پہنچا دی۔

گورنر سندھ عمران اسماعیل، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی نوٹس لیا۔ وزیراعلی کی ہدایت پہ تین رکنی کمیٹی کیس کا جائزہ لینے اور فرزانہ سے مزید معلومات لینے کے لیے نوابشاہ بھی پہنچی۔ بہت دن پہلے ملزمان کے خلاف ایف آء آر کٹنے کے باوجود تا حال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، نہ ہی کوئی تفتیش ہوتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ ملزموں نے قبل از گرفتاری اپنی ضمانتیں بھی کروا دی ہیں۔ ایس ایس پی شہید بینظیر آباد رائے  اعجاز کا کہنا تھا کہ، ضمانتیں عدالت کی طرف سے رد کی جائے گی تب ہی ہم کوئی گرفتاری کر پائے گے۔ میں اور میرے ماتحت کام کرنے والے پولیس کے عملدار، ہر سیاسی مداخلت اور سفارشی کلچر سے دور ہیں۔ ڈسٹرکٹ اور سیشن جج نوابشاہ نے فرزانہ اور اس کے والد کو عدالت میں مزید پوچھ گچھ کے لیے طلب کرلیا ہے۔ پر فرزانہ نے جب شروع میں پریس کلب پہنچ کر اپنی بات بتائی، تو حد یہ تھی کہ فرزانہ کے ابو اعجاز جمالی کو گرفتار کیا گیا کہ وہ پروفیسر عامر خٹک پہ حملہ آور ہوا ہے، پر کوئی یہ بھی بتائے تو سہی جس کی نوجوان بیٹی اگر کسی کی ہراساں کرنے کی وجہ سے پڑھنا چھوڑ دے، گھر کی چار دیواری تک محصور ہونے پر مجبور کی جائے، کیا اس باپ کا دماغ ٹھنڈا رہہ پائے گا؟ کیا اسے غصہ نہ آئے گا؟ اور پھر بعد میں ضمانت پہ اعجاز جمالی کو رہا کیا گیا۔

بے حس معاشرے کے سامنے بے بس لاچار باپ کا کہنا ہے کہ، میری بیٹی سمیت بہت سی طلبات اس وی سی ارشد سلیم اور پروفیسر عامر خٹک کے ہاتھوں بلیک میل ہیں، جو معاشرے میں بدنامی کے ڈر سے آواز نہیں اٹھار رہی۔ اس واقعہ کے بعد طالبات کی حاضری بھی معمول سے کم ہوگئی ہے۔ اور ادھر فرزانہ غم سے نڈھال ہے، اس بیچاری نے تو کھانا پینا چھوڑ دیا ہے اور وہ سخت ذہنی دباوٴ کا شکار ہے۔ اس کا بلڈ پریشر بھی کم سطح پہ آگیا ہے، اور اب وہ میڈیا کے سامنے آنے سے بھی انکار کر رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے امید تھی کہ میڈیا پہ آواز اٹھانے پر مجھے انصاف ملے گا، پر اب وہ بلکل مایوس اور اداس ہوتی جا رہی ہے۔

ایک بڑی تعلیمی درسگاہ سے یہ خبر آنا بہت بڑی دکھ کی بات ہے، پر حقیقت یہ ہے کہ، اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے ماروی ہاسٹل سے بھی ایسی خبریں آتی رہی ہیں کہ، ہاسٹل کا عملا لڑکیوں کو ہراساں کرتا ہے۔ اور یاد رہے کہ 2017ع کی جنوری کی پہلی ہی تاریخ کو ایک نوجوان اور ذہین طلبہ نائلہ رند نے پنکھے سے لٹک کے خودکشی کر لی تھی، اور بتایا گیا کہ اسے ہراساں کرکے ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا، پھر تو جتنی زبانیں اتنی باتیں، کسی نے کہا کہ خودکشی ہے تو، کسی نے کہا کہ اس کا خون ہوا ہے۔ بحرحال وہ ایک نوجوان لڑکی، جس نے اپنی جوانی میں کئی خواب پروئے تھے، اس کی وہ لڑی ٹوٹ گئی اور سارے خواب ریزہ ریزہ ہوکے بکھر گئے۔ پھر ہونا کیا تھا، دو دن میڈیا نے اس بات کو اپنی پبلسٹی کے لیے اٹھایا اور پھر اس کی کفن کے ساتھ اس کی خبر بھی پرانی ہوگئی۔ ساری تفتیش، جاچ پڑتال اور اس کی ایف آئی آر کسی سرد خانے میں پڑی فائیلوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دب گئی۔ اسی ہی سال کے ماہ ستمبر میں، جامشورو باسی میٹرک کی طلبہ تانیہ خاصیخلی کا قتل ہوا، اس پہ بھی بہت سی باتیں سننے کو ملی، پر جو جا چکی وہ پھر نہ لوٹ سکی۔

ہمارے معاشرہ کا بڑا المیہ ہے کہ یہاں مرد حضرات پڑھنے والی نوجوان بچیوں کو بیٹیوں کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ یہاں جہاں علم کی شمع روشن ہے، اور جاہل دماغ شعور پاتے ہیں، وہاں بھی بدقسمتی سے جنسی ہوس کے بھوکے بھیڑیے گھومتے رہتے ہیں، اور اس طرح وہ سامنے آتے ہیں، جیسے پڑھنے والی لڑکیاں ان کی بیٹیاں نہ ہو۔ ان کا درس و تدریس کے عمل میں توجہ سے زیادہ اس بات پر دھیان ہوتا ہے کہ، لڑکی کا پہناوا کیا ہے؟ وہ نقاب پوش ہو کے آتی ہے، کہ چادر، دوپٹے میں آتی ہے یا جینز میں آتی ہے؟ ان کے تنگ ذہن کو بس یہی سوجھتا ہے کہ، کس لڑکی کو سیمسٹر امتحانات میں پاس ہونے جتنے مارکس نہ دے کر بلیک میل کیا جائے، اور ان کو جنسی طور پہ ہراساں کیا جائے، تاکہ ان کا ذہن محصور ہوجائے، اور ذہین اور ہوشیار لڑکیاں تعلیم کے میدان میں کامیابیاں حاصل نہ کر سکیں۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ایسی خبریں ہمیشہ آتی رہتی ہیں۔ یہ وہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگریاں ملتی ہیں۔

اتنی بڑی اسناد دینے والے پروفیسر، لیکچرار یا وائیس چانسلر اور پرنسپل ایسے بچیوں جیسی طلبات پہ بری نظر ڈال کر ان کو ہراساں کرنے لگیں گے تو وہ کس طرح سے علم حاصل کر سکیں گی؟ یوں تو ہم سب بڑا رونا روتے ہیں کہ بچیوں کو اسکول میں داخل کرایا جائے، ان کو علم کے زیور سے آراستہ کیا جائے، ان کو مردوں کے برابر حقوق دے کر ان کو باہر ملازمت کی اجازت دی جائے، پر سچ کہوں تو اگر ایسے ہی ان کی عزت کو باہر کے مردوں سے خطرہ لاحق ہوگا، تو وہ گھر میں بیٹھی ٹھیک ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی لڑکی عزت و آبرو کا سودا تعلیم کے ساتھ نہیں کر پائی گی۔ جو حضرات اتنا پڑھ لکھ کر بھی بچیوں کو ہراساں کر رہے ہیں، کیا وہ برداشت کر سکیں گے ایک عورت کی ترقی ہو اور سماج میں اس کا مقام بڑھے اور وہ ان کے مد مقابل ہو؟ اگر ہم اپنے دماغ اور سوچ کو درست نہیں کر سکتے تو، ہمیں کوئی حق نہیں کہ خواتین کے حقوق ان کے تعلیم اور آزادی نسواں کے لیے بڑی بڑی باتیں کریں، سیمینار منعقد کروائیں، اخباروں میں مہنگے مہنگے اشتہارات چھپوائے۔ سب سے اچھا تو یہ ہوگا کہ اس موضوع پہ کیوں نہ روزہ ہی رکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).