عمران خان اور علمائے کرام سے اقتصادی مشاورت


تحریک انصاف کی نوزائیدہ حکومت کو درپیش مسائل میں سے غالباً سب سے بڑا چیلنج بحران کا شکار معیشت کی بحالی کا ہے۔ اسد عمر کی بطور وزیر خزانہ تقرری کے بعد گزشتہ ماہ کے آخر میں اقتصادی مشاورتی کونسل کو از سرِ نو تشکیل دیا گیا۔ اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل اقتصادی ماہرین کے ناموں میں ایک نام ڈاکٹر عاطف میاں کا تھا۔ ڈاکٹر عاطف میاں ایم آئی ٹی کیمبرج سے فارغ التحصیل ہیں۔ اقتصادیات کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ کی سند رکھتے ہیں۔ آج کل نیو جرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی میں تدریسی و تحقیقی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سنہ 2014 میں آئی ایم ایف نے دنیا کے پچیس کم عمر ترین ماہرین معاشیات میں ان کا نام شامل کیا۔ یہ وہ اسناد تھیں جن کی بنیاد پر ڈاکٹر عاطف میاں کو اکنامک ایڈوائزری کونسل میں شامل کیا گیا تا کہ پاکستان کی معیشت کو بحالی کی راہ پر ڈالنے کا سامان کیا جا سکے۔ لیکن پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان میں بھی محض قابلیت کافی نہ ٹھہری۔ ڈاکٹر عاطف میاں کا تعلق جماعتِ احمدیہ سے ہے اور ان کی شخصیت کا یہ وہ پہلو تھا جس نے ایک طوفان برپا کر دیا۔

جہاں مذہبی جنونیوں نے اس تعیناتی کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے حکومت سے ڈاکٹر عاطف میاں کو اس عہدے سے فارغ کرنے کا مطالبہ کیا وہیں پیپلزپارٹی کی رہنما شہلا رضا بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس کارِ ’’خیر‘‘ میں اپنا حصہ ڈالنا نہ بھولیں جس میں انہوں نے ڈاکٹر عاطف میاں کو مرزا غلام احمد قادیانی کا پڑپوتا قرار دیتے ہوئے حکومت کے اس اقدام پر شدید تنقید کی۔ شہلا رضا کی نفرت انگیز ٹویٹ پر پیپلزپارٹی نے بالکل ویسی خاموشی سادھ رکھی جیسی خاموشی پیپلزپارٹی نے گورنر پنجاب شہید سلمان تاثیر کے بہیمانہ قتل کے بعد اختیار کی تھی۔ بہر حال محترمہ شہلا رضا کی معلومات کی درستی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ ڈاکٹر عاطف میاں تو مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے یا پڑپوتے نہیں لیکن پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مرزا مظفر احمد مرزا غلام احمد قادیانی کے سگے پوتے تھے اور جب وہ حکومت پاکستان میں سیکرٹری وزارت مال کے عہدے پر کام کر رہے تھے تو ان کے دستخط شدہ کرنسی نوٹ ہر پاکستانی استعمال کیا کرتا تھا۔

اقتصادی مشارتی کونسل کے اراکین کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے لگ بھگ چار دن بعد پاکستان کے ایوانِ بالا میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، مسلم لیگ نواز، عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی جانب سے ایک توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا گیا جس میں حکومت سے ایک قادیانی کو اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے پر حکومت سے وضاحت طلب کی گئی۔

سوائے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت بلکہ پیپلزپارٹی جیسی بائیں بازو کی سیاست کا دعویٰ کرنے والی جماعت شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے بیٹھی رہی۔ فواد چوہدری تو یہاں تک کہ گئے کہ ڈاکٹر عاطف میاں کی تعیناتی پر شور و غوغا کرنے والے لوگ انتہا پسند ہیں اور ان کی حکومت انتہاپسندوں کے سامنے نہیں جھکے گی۔ پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا نہ کہ انتہا پسندوں کی منشا کے مطابق، وغیرہ وغیرہ۔

لیکن پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے عاطف میاں کی تعیناتی کے معاملے پر ’’علما‘‘ کو مشاورت کے لئے بُلا لیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جن ’’علما‘‘ کو مشاورت کے لئے بلایا گیا ان میں مفتی رفیع عثمانی، مفتی نعیم، زاہد الراشدی اور مولوی اللہ وسایا کے نام شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے تین کا تعلق دیو بند مکتبِ فکر سے جبکہ چوتھے کا تعلق مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت نامی گروہ سے ہے جو احمدی کمیونٹی کے بارے میں سخت گیر اور متشدد مؤقف رکھنے کے حوالے سے نہ صرف شہرت رکھتا ہے بلکہ احمدی عبادت گاہوں پر حملوں اور احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر قاتلانہ حملوں میں بھی ملوث رہا ہے۔ گویا بزبان میر تقی میر

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

عاطف میاں کی تقرری کے معاملے پر تو وزیراعظم عمران خان نے ’’عطار‘‘ کے لونڈے کی بجائے اسی ’’عطار‘‘ کو مشاورت کے لئے بلاوا بھجوا کر واضح پیغام دے دیا کہ عاطف میاں ایڈوائزری کونسل میں اب چند دنوں کے مہمان ہیں۔ لیکن پھر اس کہانی میں ایک اور موڑ آیا۔ ’’علما‘‘ سے مشاورت کا تکلف برتے بغیر ہی عمران خان کی حکومت نے اس مسئلے سے جان چھڑانے میں عافیت جانی اور 7 ستمبر کے دن تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ایک ٹویٹ کے ذریعے خبر دی کہ حکومت نے ڈاکٹر عاطف میاں سے اکنامک ایڈوائزری کونسل سے مستعفی ہونے کا کہا ہے اور وہ استعفیٰ دینے پر راضی ہو گئے ہیں۔

گو اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ محض ایک اتفاق تھا یا وزیراعظم عمران خان پر مذہبی شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا نتیجہ کہ عاطف میاں کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کے ممبر کی حیثیت سے الگ کرنے کا فیصلہ عین اسی دن سامنےآیا جس دن سنہ 1974 میں ان کے ہم مذہب لوگوں کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے کافر قرار دیا گیا تھا لیکن ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ وزیراعظم عمران خان (جو بڑے طمطراق سے دعویٰ کرتے رہے کہ نہ کبھی کوئی انہیں بلیک میل کر سکا ہے اور نہ کبھی انہیں کوئی بلیک میل کر پائے گا) مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو گئے ہیں۔ بلیک میلنگ ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نام ہے۔ ایک بار آپ بلیک میل ہو جائیں تو پھر یہ سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں وزیراعظم عمران خان نے بلیک میل ہو کر اس سلسلے کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ معاملات اور مطالبات کی نوعیت بدلتی رہے گی لیکن وزیراعظم صاحب اس طبقے کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہیں گے۔ خواہ وہ سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا معاملہ ہو یا پھر مدرسہ اصلاحات کا، عمران خان کی حکومت اس طبقے کے جائز ناجائز مطالبات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتی رہے گی۔

ڈاکٹر عاطف میاں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک پر اقتصادی مشاورتی کونسل کے دو اراکین ڈاکٹر عاصم اعجاز خواجہ اور ڈاکٹر عمران رسول نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم اعجاز خواجہ ہارورڈ کینیڈی اسکول میں انٹرنیشنل فنانس اینڈ ڈویلپمنٹ کے پروفیسر ہیں جبکہ ڈاکٹر عمران رسول یونیورسٹی کالج لندن میں معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ نتیجتاً اقتصادی مشاورتی کونسل تشکیلِ نو کے صرف سات روز بعد ہی بین الاقوامی شہرت رکھنے والے تین قابل ماہرین اقتصادیات سے محروم ہو چکی ہے۔

اب جب کہ ڈاکٹر عاطف میاں کی چھٹی کروا دی گئی ہے تو میری عاجزانہ رائے ہے کہ وزیراعظم صاحب نے ڈاکٹر عاطف میاں کے معاملے پر جس مشاورتی اجلاس کے لئے’’علما‘‘ کو مدعو کیا تھا اب اسے منسوخ کرنے کی بجائے ان ’’علما‘‘ سے نہ صرف اقتصادی مشاورتی کونسل میں شامل دیگر اراکین کی منظوری لے لی جائے بلکہ لگے ہاتھ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرز پر پاکستان کے چیدہ چیدہ ’’علما‘‘ پر مشتمل ایک کونسل بنائی جائے جس کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی بھی حکومتی نوٹیفیکیشن کے اجرا پر پابندی لگا دی جائے اور اس ضمن میں ضروری قانون سازی بھی جلد از جلد کر لی جائے تاکہ حکومتی معاملات کو بغیر کسی غیر ضروری تعطل کے آگے بڑھایا جا سکے۔ مجوزہ کونسل سے ملکی اور عالمی سطح کے معاملات پر بھی رہنمائی حاصل کی جائے اور پھر کونسل کی ہدایات کی روشنی میں حکومت اپنی ترجیحات کا از سرِ نو تعین کرے تا کہ مستقبل میں ایسی کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکے۔

مملکتِ خداداد میں کالعدم سپاہ صحابہ کا سربراہ احمد لدھیانوی راتوں رات کلین چِٹ حاصل کر کے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ اسی کالعدم دہشتگرد جماعت سے تعلق رکھنے والا ایک اور شخص معاویہ اعظم صوبہ پنجاب کی اسمبلی کا رکن منتخب ہو سکتا ہے لیکن اقتصادی امور میں بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ ڈاکٹر عاطف میاں کی پاکستان کے وزیراعظم کی مشاورتی کونسل میں تقرری غیر ممکن ہی نہیں، غیر اسلامی بھی ہے۔ ڈاکٹر عاطف میاں کی بطور اقتصادی مشیر تقرری کا زور و شور سے دفاع کرنے پر اب وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے معافی تلافی کے مطالبات بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ چوہدری صاحب کو چاہئیے کہ ختم نبوت پر ایمان کے حوالے سے تجدیدی بیانات دینے کی بجائے کفارے کے طور پر سیدھی سیدھی معافی مانگ لیں۔ اب ہمارے ’’علما‘‘ اتنے بھی تنگ نظر نہیں ہیں کہ ان کی معافی کو شرفِ قبولیت نہ بخشیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ ڈاکٹر عاطف میاں کی نامزدگی واپس لینے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی حکومت آئین کے آرٹیکل 25 اور آرٹیکل 27 کی آخری رسومات کے پروگرام کی تفصیلات بھی جاری کر دیتی۔ جاتے جاتے قائداعظم کی روح سے معذرت کہ پاکستان کو ان کے اصولوں کی بجائے انتہا پسندوں کی منشا کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔اور رہ گیا سوال معیشت کی بحالی کا تو ڈاکٹر عاطف میاں سے استعفی لینے کے بعد معیشت کی بحالی کا مشن تقریباً آدھا مکمل ہو گیا ہے۔ کسی راسخ العقیدہ مسلمان کی ان کی جگہ محض تعیناتی سے ہی اس مشن کا باقی ماندہ حصہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ اطمینان رکھیئے، گھبرانا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).