میڈیا کے گمنام ستارے!


بالوں میں چاندی، آنکھوں پر چشمہ اور چہرے پر پریشانی۔ یہ مبشر زیدی سے میرا پہلا شخصی تعارف تھا۔ شخصی اس لئے کہ میری ان سے براہ راست کبھی بات نہیں ہوئی۔ میں یہ بات صاف کردوں کہ یہاں ڈان والے مبشر زیدی کا تذکرہ ہرگز نہیں ہورہا۔ یہاں تو سو لفظوں کی کہانی والے مبشر علی زیدی کی بات ہورہی ہے۔

ویسے تو زیادہ تر قاری مبشر علی زیدی کے نام سے ناواقف ہوں گے۔ لیکن اگر آپ بھی میری طرح باقاعدگی سے کئی سال سے جیونیوز دیکھتے آرہے ہیں۔ اور آپ کو بھی اس کے کانٹینٹ میں۔ خصوصاً نو بجے کی ہیڈلائنز میں اب وہ مزا نہیں آتا جو ماضی میں تھا۔ تو یقین مانیں آپ بھی انجانے میں سہی لیکن مبشر علی زیدی کی تحریر کے فین ہیں۔ کیوں کہ کچھ عرصہ پہلے تک جیو کے کانٹینٹ میں جو چسکا نظر آتا تھا اس کے پیچھے بہت اہم کردار مبشر علی زیدی کا تھا۔

جیسے میں نے ابتدا میں بتایا کہ مبشر زیدی سے میرا براہ راست تعارف کبھی نہیں رہا۔ اس کے باوجود کہ میں بھی اس ادارے میں دو سال رہا جہاں وہ کئی سال کام کرتے رہے۔ لیکن پھر بھی ہمارا کبھی براہ راست باقاعدہ تعارف نہیں ہوا۔ سوائے اس کے کہ جیو چھوڑنے کے بعد میں نے انہیں فیس بک پر ایڈ کرلیا۔ وہ کبھی کچھ شیئر کرتے تو میں اس پر کمنٹ کردیتا۔

2012 تک میری مبشر علی زیدی سے واقفیت اسی حد تک تھی جب تک 2012 میں میں نے جیو نیوز کے 9 بجے کے خبرنامے کی ہیڈلائنز کو غور سے دیکھنا شروع نہیں کیا۔ غور سے مراد۔ اس سے پہلے تک میں ہیڈلائنز خبر کیا بتائی جارہی ہے کے لئے دیکھتا تھا۔ لیکن 2012 سے میں نے خبر کس طرح بتائی جارہی ہے اس پر غور شروع کیا۔
پتا کیا کہ بھائی یہ الفاظ کس کے ہوتے ہیں تو معلوم ہوا مبشر زیدی صاحب خود اپنے الفاظ کی منفرد چاشنی سے روز کوئی نیا تڑکہ لگاتے ہیں۔
میں بڑا متاثر ہوا اس دن کے بعد سے میں نے مبشر زیدی کو باقاعدہ فالو کرنا شروع کردیا۔

میں اکثر کافی دیر تک ان کی تحریر کا اسٹرکچر جانچنے کی کوشش کرتا۔ اس میں پیٹرن تلاش کرتا کہ کونسی بات کو کہاں اور کس طرح جوڑا جارہا ہے۔ اسی طرح میں نے ان کی تحریر کردہ سو لفظوں کی کہانیاں بھی پڑھنی شروع کردیں۔ لیکن ابتدا میں ان کی کہانیوں میں وہ بات نہیں تھی جس کی میں ان کی تحریر سے امید کرتا تھا۔ وہ کہانیاں بے ربط معلوم ہوتی تھیں۔ جنہیں زبردستی کسی انجام کی جانب لے جانے کی کوشش کی گئی ہو۔ پڑھنے سے لگتا کہ کنکشنز کو زبردستی جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہو لیکن وہ پھر بھی مل کر ایک اچھی کہانی نہیں بناپارہے البتہ وقت کے ساتھ ان کی کہانیوں میں بہت سدھار نظر آیا اور آج ان کی بہت اچھی کہانیاں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ جن سے میں نے کافی کچھ سیکھا۔ ویسے تو انہوں نے دو تین کتابیں بھی لکھیں لیکن وہ اتنی مقبول نہیں ہوپائیں۔

مشبر زیدی اب کہاں ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ کیوں کہ آخری اطلاعات تک وہ جیو کو خیرباد کہہ کر پاکستان سے ہی کوچ کرچکے تھے۔ (مبشر زیدی اب وائس آف امریکہ میں کام کر رہے ہیں اور واشنگٹن میں مقیم ہیں۔ ان کی سو لفظی کہانیوں کا سلسلہ جنگ میں جاری ہے: مدیر) لیکن ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے خیال میں وہ آنے والے وقتوں کے بہترین لکھاریوں میں سے ایک ہوں گے اور ہم فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہم مبشر زیدی کے دور میں جئے۔ لیکن میرے خیال میں مبشر زیدی ایک گمنام ستارہ ہیں۔ جنہیں بھلے ہی عوامی سطح پر وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حقدار ہیں اور شاید اس بات کا انہیں ہمیشہ علم بھی تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ پوری ایمانداری اورلگن سے اپنا کام کرتے رہے۔

مبشر زیدی جیسے گمنام ستارے صرف صحافت تک محدود نہیں۔ ایسے لوگ آپ کو ہر شعبے میں ملیں گے۔ جنہیں آپ نہیں جانتے لیکن وہ اپنے شعبے اور کام کے ماہر ہیں۔ پوری لگن اور جانفشانی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ اور یہی لوگ اس ملک کے اصل ہیرو ہیں۔ جو خود گمنامی میں رہتے ہیں لیکن جس شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں اس کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ دراصل یہی لوگ اس ملک کے اور قوم کے اصلی ہیرو ہیں۔ جو اپنا کام پورا کرتے ہیں۔ ذمہ داری سے کرتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے ادارے چلتے ہیں۔ ترقی کرتے ہیں اور ملک آگے بڑھتا ہے۔ میرا اس تحریر کو لکھنے کا مقصد صرف ایک مبشر زیدی کو خراج تحسین پیش کرنا نہیں۔ بلکہ میں ان تمام شعبوں میں کام کرنے والے مبشر زیدی جیسے لوگوں کو سلام پیش کنا چاہتا ہوں جو اپنے اپنے شعبہ جات میں کچھ اچھا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ سب میرے ہیرو ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).