میڈیکل کالج کا چوتھا سال


تیسرے سال کے سالانہ پیشہ ورانہ امتحان یعنی اینول پراف میں خوش بختی،تانکا جھانکی اور کسی حد تک محنت و ریاضت کے باوجود بمشکل کامیابی کے بعد ریاضی کے حساب سے ساٹھ فیصدی ڈاکٹر لونڈے جب اچھلتے کودتے اور پُھدکتے ہوئے سال چہارم میں جب قدم رکھتے ہیں تو ان کی امیدوں اور ارادوں میں پختگی آچکی ہوتی ہے۔
یعنی بیک وقت شرافت اور بے غیرتی کے اس لاعلاج مقام پر فائز ہو چکے ہوتے ہیں جہاں سے واپسی قریب قریب ناممکن ہوتی ہے۔

موت مرگ کے چوتھے روز،موٹر کے چوتھے گئیر اور میڈیکل کالج کے سال چہارم میں یہ قدر مشترک ہے کہ ان میں تکلیف کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ وقت اور حالات کے انتہائی سرعت سے گزرنے کا احساس جاتا رہتا ہے۔

چوتھا برس مجموعی طور پر تغیرات کا سال ہوتا ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پہلے پہل کی لہلہاتی سرسراتی کلیاں اور کونپلیں چٹخ کر باقاعدہ پھول کا روپ دھار چکی ہوتی ہیں۔
ان پھولوں کی اکثریت گوبھی کے بھاری بھر کم اور کپاس کے روکھے پھولوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔۔ایسے میں بھنورے اور جگنو جن کی گزشتہ زندگی ان سرابوں کے گرد منڈلاتے ہوئے گزری ہوئی ہوتی ہے اپنی سابقہ خوش نظریوں،دل پشوریوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تخریب کاریوں سے باقاعدہ تائب ہو کر ان بے لذت گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور نئے سرے سے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔
اب انکا طریقہ واردات مناسب فاصلے سے ہی چشم دریدگی کرتے ہوئے داد شوخی دینا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ‘جہاں’ کو سمو لینے کی صورت میں ہوتا ہے۔

اس سال اِن شگوفوں پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جن اعضاء جلی کو اب تک انہوں نے محض شوخ نظری،غیبت کرنے،لپ اسٹک لگانے اور من چلوں کا صبر آزمانے کے لیے استعمال کیا ہوتا ہے یعنی آنکھوں،بھنووں، مژگانوں،ہونٹوں،ناک کان اور ان کے نواحی علاقوں کو اب مضمون کی صورت میں پڑھائے جاتے ہیں۔
ہم ایسے خوش طبعوں کو ان مضامین کے مطالعے کے لیے زاویہ نگاہ میں تین سو ساٹھ درجہ بدلاو لانا پڑتا ہے! جو بذات خود بیزار اور مشقت طلب کام ہے!
۔اس سے پہلے جس چشم غزالہ کے ہم واری جاتے رہے وہ اب ایگزاپتھلمس (Exopthalmos)بن کر علاج کی طلب گار ہے!
جن پھڑکتی پلکوں سے ہمارے خیالوں میں سلوٹیں پڑ جاتی تھیں انہیں بلیپھیرزم (Blepharism)کا نام دیا گیا ہے۔ہماری چشم گریاں یا چشم نم جس کے ہم قصیدے پڑھتے رہے ہیں وہ دراصل ایپی فورا (Epiphora) کا عارضہ ہے۔

ہماری حسن پرستی کی بنیادی وجہ “ستواں بینی” کا کارن ڈی این ایس ہو سکتا ہے۔۔ایسے ہی عارض گلرنگ اور رخ تاباں سلیپڈ چیکس سنڈروم (Slapped cheeks syndrom)کہلاتا ہے۔جبکہ لب تر پر دل ہارنے سے پہلے تحقیق کر لیجیے ان کے پس پردہ چیلائٹس (Cheilitis) کی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔

آپ کی جماعت ایک مصنوعی چمن کی مانند ہوتی ہے۔جس میں پھول اُگے ہیں،تتلیاں اُڑ رہی ہیں،بلبلیں چہک چہک خوش ہو رہی ہیں۔
باغ کی فصیل پر چمگادڑ،ہدہد اور جانگلی کبوتر بیٹھے ہیں۔چوتھے سال میں یہ گلستاں ہولے ہولے اجڑنا شروع ہو جاتا ہے۔آئے دن خبر اُڑتی ہے کہ آج فلاں تتلی داغِ مفارقت دے گئی۔ فلاں بلبل نےکسی ڈوڈو کے ساتھ رخت سفر باندھ لی۔کوئی مینا لوکل طوطے کو چھوڑ، کلغی والے آسٹریلوی طوطے کے ساتھ ہاتھ پیلے اور نصیب نیلے کر گئی۔
بقول شاعر

“آۓ تھے ہم مثل بلبل سیر گلشن کر چلے
سنبھال مالی تو باغ اپنا ہم تو اپنے گھر چلے”

ایسے میں یار لوگ لوگوں کی وہی کیفیت ہوتی ہے جو خانہ بدوشوں کے اس کتے کی ہوتی ہے جو رات دن بھاگ بھاگ اور بھونک بھونک گِلے کی حفاظت اس خوش فہمی میں کرتا ہے کہ وہ ریوڑ کا مالک ہے۔

خال خال ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی ہم جنس کے پیا دیس سدھارنے کی خبر ملتی ہے۔ اس صورتحال میں یار لوگ اس کا استقبال یوں کرتے ہیں جیسے میونسپلٹی والے کتے تلف کرنے کی مہم میں کسی آوارہ کتے کی لاش ملنے پر اسکا نمبر مارک کر کے کرتے ہیں۔

سردار عمار بیگ
اے جے کے میڈیکل کالج


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).