محمد اظہار الحق صاحب کی تجاویز اور مغالطے


تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ نرمی اور دلائل سے بات کرنے کا ڈھنگ سکھانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نمائندگان رب جلیل نے بھجوائے ۔ حتی کہ موسیٰ کلیم اللہ کو بھی زمین پر خدا بنے بیٹھے فرعون سے” قولاً لیناً ” یعنی نرم لہجے میں بات کرنے کا ارشاد ہوا۔ پر گالی گلوچ ، تلواراور گولی کی زبان ہمیشہ دلائل میں عاجز آنے والوں کا شیوہ رہا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ یہی دونوں رویے حق و صداقت اور کذب و باطل کی نشاندہی کر دیتے ہیں۔

محمد اظہار الحق صاحب کے متعلق خوش فہمی یہی تھی کہ علمی اور ٹھوس بات کرنے کے قائل ہیں۔ دانشور ابن دانشور ہیں۔ کوئی کچی بات ان کو زیب دیتی نہیں ۔ لیکن بے سرو پا باتیں کرکے بھرم توڑ دیا۔ خاموشی واقعی بہت بڑی نعمت ہے عیب چھپے رہتے ہیں ۔

لکھتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کو باہر سے فنڈز مل رہے ہیں۔ محترمی! آپ نے ستر برس کی عمر میں اپنے اوپر ایک ایسا قرض چڑھا لیا جس کے ثبوت لانے میں اگر آپ اگلے ستر برس بھی لگے رہیں تو لا نہ سکیں گے۔ قوم منتظر رہے گی اور آپ پر قرض واجب الادا رہے گا۔ ثبوتوں سمیت باہر سے فنڈز ملنے کا معاملہ سامنے لے آئیے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ بعض اوقات افریقہ میں دیگر مسلمان اپنی زکوۃ جماعت احمدیہ کو دے جاتے ہیں وجہ یہ کہ اپنے آئمہ پر اعتماد نہیں۔

احمدیوں کا سارا مالی نظام ممبران کے چندے پر مشتمل ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ لوگ دیتے کیوں ہیں؟ اور ایک صدی سے زائد عرصے سے دیتے کیوں چلے جا رہے ہیں۔ وجہ صاف ہے اعتماد ہے کہ ایک پائی بھی ضائع نہ ہو گی۔ جس اعتماد کے لئے وزیر اعظم صاحب بار بار اعلان کر رہے ہیں ۔ جماعت احمدیہ سو سال قبل یہ اعتماد لوگوں کو دے چکی۔ صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں یہ اعتماد قائم کر چکی۔ اب معاملہ یوں ہے کہ بعض اوقات کسی فرد کی اصلاح کے لئے سزا یہ تجویز ہوتی ہے کہ اس سے چندہ لینا بند کر دیا جاتا ہے۔ اموال کی پاکیزگی کا یہ عالم کہ مغربی ممالک میں حالت اضطراب میں کسی ممنوعہ ریسورنٹ پر کام کرنے والے سے چندہ لیا ہی نہیں جاتا۔

خدمت خلق میں احمدی رضار کار افریقہ کے ان دور دراز علاقوں تک چلے گئے ہیں جہاں تک جانے میں واقعی لفظاً و معناً ہاتھ پیر اور پر جلتے ہیں۔ باہر سے فنڈز لینے کی بات کہاں سے آگئی ،صاف پانی ، تعلیم ، بجلی ، میڈیکل کی سہولتیں دینے کے لئے جماعت احمدیہ دونوں ہاتھوں سے فنڈز لٹارہی ہے ۔ حکومت کینیڈا کی طرف سے دئیے گئے فنڈز شکریہ کے ساتھ واپس کرنے کی مثال بھی صرف جماعت احمدیہ ہی قائم کر سکی کہ اس رقم کو ہماری طرف سے ضرورت مندوں پر صرف کر دیجئے۔

جناب والا ! اکیسویں صدی کے اس دور جدید میں عقائد سے عوام اورخاص طو رپر مغرب میں پروان چڑھتی نوجوان نسل کو لاعلم رکھنے کی بات کر کے واقعی آپ نے اپنی علمیت کا پول کھول دیا۔ آج یہ ممکن کیسے ہے؟ احمدیوں کا سارا لٹریچر میسرہے۔ کئی ایک ویب سائیٹس مختلف زبانوں میں یہ کتب مہیا کررہی ہیں۔ جماعت احمدیہ کے کئی ٹی وی چینلز، کئی ریڈیو چینلز، بیسیوں اخبارات، رسائل ،ہزاروں کتب، دنیا بھر میں احمدیوں کے کئی پریس مسلسل لاکھوں کی تعداد میں پرنٹنگ کر رہے ہیں ۔ کیا اسے عقائد کو چھپانا کہا جاسکتا ہے۔

کہا آپ نے ”قادیانی خاندانی نظام مربوط اور مضبوط برادری سسٹم پر قائم ہے” ۔ حضرت شعیب سے بھی یہی کہا گیا تھا ” لو لا رھطک ” یعنی اگر تیری برادری مضبوط نہ ہوتی تو ہم تجھے سنگسار کر دیتے۔ (سورہ ہود ) آج وہی بات آپ کر رہے ہیں کہ احمدی مربوط برداری سسٹم کی وجہ سے ترقی کر گئے ہیں ۔ یا للعجب۔ فاعتبروا یااولیٰ الابصار ۔

سوچنے کی بات یہ کہ احمدیہ مخالف مسلمان جن کو تعلیم ہی اخوت کی ہے مربوط نظام کیوں نہ بناسکے۔؟ وسائل کی کمی تھی نہ علما کی۔ حکومت بھی تھی دولت بھی ۔ عاشقان، محبان اور فدائیان بھی کم پیدا نہیں ہوئے۔ تنظیمیں بھی کم قائم نہیں ہوئیں۔ احمدی کوئی آسمان سے تو اترے نہیں تھے۔ یہیں سے ہر برادری سے نکل نکل کر احمدیت میں داخل ہوئے۔ آپ کے سامنے قطرہ قطرہ دریا کیا سمندر بن گیا۔ فرد فرد آیا اور قافلہ بنتا چلا گیا۔ اگر سن سکیں تو اصل کہانی تنظیم نہ بننے اور احمدیوں کے مد مقابل ناکامی کا اقرارمولانا عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب 1892-1961)) کی زبانی سن لیجئے ۔ وہ ساری عمر احمدیوں کو گالیاں دیتے رہے۔ ہر قسم کی تعلی کے باوجود حسرت و یاس لیے ملتان کی مٹی میں جا سوئے۔ پر جاتے جاتے اپنے مشن کی ناکامی کا اظہا رضرور کرگئے۔ سچ بات ان کے منہ سے ادا ہوگئی ۔ شاہ صاحب کے دل کی گہرائیوں سے نکلے حسرت و ناکامی کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں:
” ہمارا سرمایہ خوب تھا لیکن نسل ناخوب تھی ، نتیجہ ظاہر ہے ۔ آبائی ورثہ بھی کھویا، اپنی کمائی بھی گنوائی اور مستقل کو بھی مخدوش بنا دیا۔”( آواز دوست از مختار مسعود ص 132 )
آج بھی علماء پاکستان دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ چاند تک بھی قادیانیت کا پیچھا کریں گے۔ بھول مگر یہ جاتے ہیں کہ چاند پر کمند ڈالنے والا پہلا کون ہے۔ یہ گروہ عاشقاں قادیانیوں سے پہلے چاند تک پہنچنے میں ہر دفعہ کیوں ناکام رہتا ہے ۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2