کیا میں عمران کا مخالف ہوں ؟


میری عمران خان سے کیا مخالفت ہو سکتی ہے؟ وہ کھلاڑی رہے، میں بھول کر بھی کسی کھیل کی جانب راغب نہیں ہوا، بس کتابیں ہی دلچسپی کا محور رہیں۔ ان کی اہلیاؤں میں ایک نامور بینکار گولڈ سمتھ کی صاحبزادی، ایک اپنے طور پر معروف اینکر پرسن اور ایک بزعم دوستاں روحانی شخصیت جب کہ میری اہلیاؤں میں سے ایک کو میں نے میڈیکل کالج سے برگشتہ کیا، دوسری کو اس لیے اپنایا کہ اس کے والد کو چنگیزی ہونے پر فخر تھا، تیسری سوویت فوج کے ایک یہودی ملحد میجر کی مطلقہ۔ وہ نیازی پٹھان اور میں مغل پٹھان ( یاد رہے پٹھان ہر اس شخص کو کہا جاتا رہا جو افغانستان سے ہند میں داخل ہوا، جنہیں ہم پٹھان کہتے ہیں وہ خود کو پختون یا پشتون سمجھتے ہیں، پٹھان نہیں)۔ عمران کے والد ایک سرکاری اہلکار تھے جبکہ میرے والد کاروبار سے وابستہ رہے اور پھر ایک رات میں سب گنوا بیٹھے۔ عمران کو وراثت میں زمان پارک کا گھر ملا، مجھے فقط والد کا ڈی این اے مل سکا۔ انہوں نے کھیل سے فارغ ہو کر لوگوں سے چندہ مانگ کر ہسپتال بنایا، میں میڈیکل ڈاکٹر ہو کر بھی اپنا معمولی کلینک نہ بنا پایا بالآخر پیشہ چھوڑا اور میڈیا سے وابستہ ہو گیا۔ وہ اس وقت جیسے بھی سہی، اپنے ملک کے وزیراعظم ہیں، میں اپنا ملک تج کر روس میں ایسا تارک الوطن ہوں جس کی وطن سے صرف قلبی یگانگت ہے۔

 باوجود ان سب مختلف باتوں کے بالخصوص عمران خان کے حامی، عقیدت مند اور پرستار، سوشل میڈیا پر میری مختصر باتیں اور اخبار وغیرہ میں شائع ہونے والے مضامین پڑھ کر بسا اوقات یہی اخذ کرتے ہیں جیسے میری عمران خان سے کوئی ذاتی پرخاش بلکہ عداوت ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا میں عمران کا مخالف ہوں تو میرا ایک لفظ میں جواب ہوتا ہے کہ نہیں۔ ساتھ ہی میں نے اکثر کہا کہ عمران سیاست نا آگاہ شخص ہیں جنہیں ترین جیسے گھاگ منافع خور، شاہ محمد قریشی جیسے شاطر چالباز اور اسی قبیل کے ایسے لوگوں نے، جن کا ماضی میں کسی نہ کسی طرح ان حکومتوں سے واسطہ رہا جو فوجی آمروں خاص طور پر پرویز مشرف کے تحت رہی تھیں، اپنے مخصوص مفادات کے لیے “پاپولسٹ” سیاست کرنے پر مائل کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص کسی کے کہنے یا اکسانے پر کسی بھی جانب مائل تب تک نہیں ہوا کرتا جب تک اس میں اسے خود دلچسپی نہ ہو اور وہ اس میں اپنا مفاد نہ دیکھ رہا ہو۔

 ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے، بشمول جرنیلوں اور سرکاری افسروں کی لوٹی ہوئی دولت کے تو میں اتنا ہی خوش ہوں گا جتنا کوئی بھی ہو سکتا ہے، مگر کیسے؟ تو پہلی بات تو یہی پاپولسٹ ہے۔ ممکن ہے بہت سے اخراجات کر کے عشر عشیر واپس آ جائے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہو مگر وہ جو مراد سعید نے بلند آواز سے اعلان کیا تھا کہ حلف اٹھانے کے اگلے روز ہی عمران خان غیر ملکوں میں موجود 200 ارب ڈالر ملک واپس لے آئیں گے، کیا ہوا؟ میں اور آپ تو سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا کہنا مراد سعید کا محض بچگانہ سیاسی نعرہ تھا مگر عام آدمی تو امید لگا کر بیٹھ گیا ہوگا کہ لو جی یہ آئی دولت اور یہ ہوئے ہم سب کے وارے نیارے۔

 ملک کے چیف جسٹس ویسے بھی درفنطنیاں چھوڑنے سے باز نہیں آتے، پہلے ڈیم فنڈ کا اعلان کر دیا پھر حکومت سے برسرعام کہہ دیا کہ سنبھالو اسے۔ عدالت عالیہ ایسے کام کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ خان صاحب نے سنبھال لیا اور ساتھ ہی وزیراعظم ڈیم فنڈ بھی متعارف کروا دیا۔ نہ میں اور نہ آپ کوئی بھی ڈیمز کی تعمیر یا آبی معاملات بارے ماہر ہیں مگر پاکستان کے چینلوں کے ٹی وی ٹاک شوز میں بہت زیادہ ماہرین کہہ چکے ہیں اور کہتے رہے گے کہ چندہ جمع کرکے ڈیم نہیں بنا کرتے۔ تو دوسرا پاپولسٹ تجربہ یہ ہوا۔

 کمیشن پر کمیشن بنائے چلے جا رہے ہیں اور عجلت میں رپورٹس بھی مانگ رہے ہیں۔ عجلت میں کیے کام کبھی درست نہیں ہوا کرتے۔ میں نے عمران خان کے یو ٹرنز کی نہ کبھی پہلے بات کی نہ اب کرنا چاہتا ہوں۔ سیاستدان بات کر کے پھر بھی جایا کرتے ہیں بلکہ بارہا مکر بھی جاتے ہیں لیکن اس تواتر سے نہیں جتنا عمران خان نے کیا۔ ماہر معیشت کو مقرر کیے جانے اور پھر اتارے جانے کا معاملہ کوئی آخری ایسا معاملہ نہیں ہوگا۔

غالبا~ روحانی مشورے پر وہ گھر بیٹھ گئے ہیں جبکہ بہت سے دانش مند لوگ انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے فورم پر جائیں اور پاکستان کا مقدمہ دبنگ انداز میں اقوام عالم کے سامنے رکھیں مگر شنید یہی ہے کہ روایت کے مطابق وہ پہلے سعودی عرب جائیں گے اس کے بعد امریکہ یا چین۔

چنانچہ عمران خان کی وجہ سے میری مخالفت کرنے والوں کو سمجھ آ گئی ہوگی کہ میں عمران خان کا مخالف نہیں ہوں بلکہ ان کے گرد جمع لوگوں، ان کی نعرہ باز سیاست اور ایسی ہی دیگر باتوں پر تنقید کرتا ہوں یا محض آئنہ دکھاتا ہوں۔ یہ درخواست بھی کرتا ہوں کہ اگر آئنے میں آپ کو اپنا چہرہ دھندلا یا بگڑا ہوا دکھائی دے تو آئینے کو آنکیے یا اپنے چہروں کی شکنیں سیدھی کرنے کی کوشش کریں۔

 میں سیاسی کارکن نہیں ہوں۔ جب ہوا کرتا تھا تب بھی نہ کسی کا عقیدت مند رہا نہ فرماں بردار بس مخلص کارکن رہا تھا۔ اب عمر کے اس حصے میں ہوں جب عقیدت تو کیا عقیدہ قائم رکھنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اپنے تجربے، علم اور موجود مشاہدے کی بنیاد پر اندازے ہی لگا سکتا ہوں۔ تنقید کرنے کا مطلب اصلاح کی جانب توجہ دلانا ہوتی ہے کسی کا تمسخر اڑانا نہیں۔ طنز بھی ایک ایسا ہتھیار ہے جو زیر طنز فرد یا افراد کو چوکنا کرتا ہے کہ خود کو کم از کم بظاہر ہی سہی درست کرلیں تاکہ مزید طنز نہ ہو۔

 گالیاں بکنے اور لغو گوئی کرنے والوں کی نسبت تحریک انصاف کے کچھ حامی جو بحمدللہ دوسروں کی تعظیم کرنے سے تاحال گریزاں نہیں ہوئے، اپنی بات کہنے کے علاوہ دعا کرنے کو کہتے ہیں۔ دعا ہم مذہب نواز لوگوں کا وتیرہ ضرور ہے لیکن دعا سے سیاسی معاملات کا حل نہیں نکلا کرتا پھر خان صاحب کے لیے تو خاص دعا کرنے والی خاص شخصیت ہمہ وقت ان کے ساتھ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بلند و بانگ دعوے کیے تھے ان کے بارے میں اب سچ بتایا جائے اور ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے بچا جائے جس کو بعد میں مسترد کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).