خوابوں کے عذاب


ماہرخواب قبلہ طوطے شاہ اپنے تجربے کے زورپرخوابوں کی تعبیریں کھوجتے ہیں‘ جنہیں وہ خوابوں کے عذاب کہتے ہیں۔آپ کے خواب چاہے‘ رومانوی اورافسانوی ہوںیا نوکیلے اورکاٹ دار‘ ان کی تعبیریں بیان کرنا طوطے شاہ کے بائیں ہاتھ کاکھیل رہاہے؛

البتہ آج 11ستمبرکوعلی الصبح خودآپ نے ایک ایساخواب دیکھاہے‘ جس نے ان کے اوسان خطاکردیے ہیں۔دراصل ایک بہشتی رہنمانے اپنی برسی کے موقع پران کے خواب میں آکراپنے خواب کی تعبیرپوچھی ہے۔تادیررقت طاری رہنے کے بعدسرکارنے اپناتمام ترتجربہ ‘ہمت اورحوصلہ مجتمع کرکے اس خواب کی تعبیربیان کی ہے۔آپ بھی اپنی ہمت اورحوصلہ مجتمع کرکے ملاحظہ فرمایئے:۔

خواب: میں نے ایک آزاداورخودمختار ریاست کے بانی کی حیثیت سے وہاں جمہوریت‘ آزادی ‘مساوات‘ انصاف ‘بنیادی حقوق اور قانون کی بالا دستی کا خواب دیکھا تھا ۔قانون سازاسمبلی سے 11اگست1947ء کے اپنے خطاب کے دوران میں نے سماجی انصاف کے اصولوں پرمبنی اس ریاست کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہاتھاکہ

آپ پاکستان کی ریاست میں آزادہیں‘آپ آزادہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں‘آپ آزادہیں کہ اپنی مساجدمیں جائیں یا کسی اورعبادت گاہ میں جائیں۔ آپ میں سے ہرفرد‘ قطع نظراس سے کہ اس کاتعلق کس کمیونٹی سے ہے یایہ کہ اس کارنگ ‘ذات یاعقیدہ کیاہے‘ وہ اول وآخریکساں حقوق‘ مراعات اورذمہ داریوں کے ساتھ اس ریاست کاشہری ہے۔میں نے اپناخواب بیان کرتے ہوئے کہاتھاکہ آپ کوذہن نشین کرلیناچاہیے کہ وقت آئے گا‘مذہب مسلمہ ہرایک کااپناذاتی معاملہ ہے ‘مگرسیاسی لحاظ سے وہ پاکستان کابرابرکاشہری ہوگا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جنت میں فرشتے مجھے میرے مزار پر دن رات لگنے والے رش کا تو بتاتے ہیں ‘ لیکن جب میں ان سے اپنے خواب کی تعبیر کا پوچھتا ہوں‘ تو وہ کھسیانے سے ہوکر نظریں چرانے لگتے ہیں ۔ کیا آپ میرے خواب کی تعبیر کے متعلق کچھ بتا سکتے ہیں ؟

تعبیر: گئے موسم میں جوکھلتے تھے گلابوں کی طرح/دل پہ اترے ہیں‘ وہی خواب عذابوں کی طرح…محترم قائدعظیم! فردوس بریں میں آپ کے درجات بلند ہوں۔ بات کرنے پہ طوطے شاہ کی زباں کٹتی ہے ۔پس جتناممکن ہوا‘عرض کرسکوں گا۔سب پہلے توبصدادب یہ واضع کردوں کہ جہاں تک آپ کے مزار پر لگنے والے رش کا تعلق ہے‘ تو وہ وہاں فاتحہ پڑھتے ہوئے فوٹو بنوانے والے زعمائے ملت اور انواع و اقسام کے پریمی جوڑوں کا ہوتا ہے ۔

ہر دو گروہ اپنی ”پیشہ ورانہ سرگرمیوں‘‘ کے لیے آپ کے مزار کو موزوں ترین مقام تصور کرتے ہیں ۔ رہی بات آپ کے خواب کے تعبیر کی تو تکلف بر طرف قائد! ماڑی پور کے فٹ پاتھ پر آپ کی ایمبولینس کیا خراب ہوئی کہ ہماری تو چاندی ہو گئی ۔

حضور والا! آپ کی روح کو آزار پہنچانا مقصود نہیں‘ لیکن معاف فرمائیے کہ آپ کے خواب کو آپ کے افکار کی روشنی میں من و عن تعبیر دینے میں بڑی قباحتیں پوشیدہ تھیں ۔ الحمدللہ! ہم نے بروقت یہ خطرہ بھانپ کر پیش بندی شروع کردی ۔آپ کی رحلت کے بعدنیکوکاروں اورآپ کی جیب کے کھوٹے سکوںسے قوم کی یتیمی دیکھی نہ گئی ‘لہٰذاوہ سکہ رائج الوقت بن بیٹھے۔

انہوں نے رفع شر کے لیے جہاں بروقت قوم کے سرپراپنامہرباں سایہ (براہ کرم اپنی کمزاراُردوکی بناپراسے مہیب سایہ نہ سمجھ بیٹھیے گا) قائم کرلیا‘ وہاں بغیروقت ضائع کیے آپ کے افکارونظریات کی اصلاح اورتشریح کا بارِگراں بھی اپنے مضبوط کندھوں پر کندھوںپراٹھالیا۔اس طرح جو پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے‘ وہ آپ کے خیالات کو سدھارنے کاثواب دارین بھی سمیٹنے لگے۔

ہم نے آپ کے افکارپردقیق تحقیق کاعمل شروع کیاتوعقل وخردکو چکرادینے والی تہیں کھلتی چلی گئیں۔نمونے کے طور پر عرض ہے کہ مناسب قطع و برید کے ذریعے آپ کے احکام ”کام ‘کام او ر بس کام‘‘ کو ”آرام‘ آرام اور بس آرام‘‘ اور ”ایمان ‘اتحاد‘ تنظیم ‘‘ کو ”بے ایمانی‘ انتشار‘ بدنظمی‘‘ ایسی نئی نئی جہات سے روشناس کرایاگیا‘ تاکہ باعزت طریقے سے دنیا کی رہنمائی کافریضہ انجام دیا جا سکے ۔

ایک مرد مومن نے تو آپ کی ایسی نایاب ڈائری بھی برآمد کرلی ‘ جس کے مطالعہ کے بعد آپ جمہوریت کی بجائے مبینہ طور پر شخصی حکمرانی کے حامی نظر آتے ہیں ۔

حضرت قائد!آپ کے خیالات سرآنکھوں پرمگرملک وقوم کے وسیع ترمفادمیں عقل ودانش کے ساہوکار سرجوڑ کربیٹھے اورآپ کے نظریات کے بخیے ادھیڑکرانہیں دوبارہ سیاتوہم پہ کھلاکہ اصول پسندی‘ دیانت ‘ امانت اورسماجی انصاف پرمبنی جمہوری ریاست کاخواب محض آپ کی روایتی جذباتی طبیعت کا شاخسانہ تھا۔

مالک حقیقی ہی بہتر اورخوب جانتاہے‘ مگرمردمومن کی طرف سے آپ کی برآمدکی گئی ڈائری سے تویہ ہوشرباانکشاف بھی ہوتاہے کہ آپ تاریخ‘ فکروفلسفہ‘ فنون لطیفہ ‘مکالمہ اورغوروفکرکی کھڑکیاں بندکرکے فرقہ پرستی اور اندھی تقلیدکی فضاپیداکرنے کے حامی تھے۔

جہاں تک آپ کے شوقِ برابری کاتعلق ہے تودوبارہ معذرت ‘ہم نے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کاتحفظ کردیاہے اورہمارے خیال میں یہ کافی ہے۔باقی ہم راسخ العقیدہ اہل ایمان کو امورمملکت میں ان کے عمل دخل پرسخت تحفظات ہیں۔

ایسے اقدامات سے ہماری نظریاتی سرحدوں کوشدیدخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ہم ہرکسی کے لیے یکساں حقوق‘مراعات اورذمہ داریوںکاحق تسلیم کرکے ملکی سلامتی دائوپرنہیں لگاسکتے؛ البتہ ہم آپ کے شوق ِبرابری ہذاکا اتناخیال ضروررکھتے ہیں کہ ان کے ممالک میں جاکراپنے برابری کے تمام حقوق کے لیے اچھی طرح لڑلیتے ہیں۔

ہم ایک اور بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر آپ اپنی زندگی میں آمریت کے اتنے دشمن کیوں تھے ؟ اس راز کا کھوج لگانے کے لیے ہم نے 33برس تک دشتِ آمریت کی سیاحی کی ۔ تلخ نوائی معاف ! ہمیں تو اس نظام میں کوئی خراب نظر نہ آئی ‘ سوائے اس کہ آدھا ملک ہاتھ سے نکل گیا ‘ باقی تو کچھ بھی نہ بگڑا‘ تاہم آپ کا دل رکھنے کی خاطر ہم نے کئی دفعہ آمریت کے راستے میں ” دیوارِ چین‘‘ کھڑی کی ‘مگر صد افسوس کہ وہ ہر دفعہ ٹھیکیداروں کی بے ایمانیوں اور ناقص میٹریل کی و جہ سے گر جاتی ہے ۔

اس کے باوجود ہم نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا ہے ‘ چاہے وہ ضمیر کی قربانی ہی کیوں نہ ہو۔ اس مقصدِ اولیٰ کی خاطر لوٹا کریسی ‘ نظریہ ضرورت اور نظریہ شرارت ایسے عجوبے متعارف کرائے گئے ہیں ‘ جن پر دنیا انگشت بدنداں ہے ۔

جناب والا!آپ کے خواب کی تعبیرعرض کرتے ان گزارشات کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم نے آپ کے تمام افکار کو پس پشت ڈال دیاہے۔آپ آزادی کے بہت دلدادہ تھے ‘ سو آپ کومبارک ہو کہ آپ کے خیالات سے ذدرامختلف سہی‘ مگرہرطرح سے ”آزاد‘‘ اسلامی جمہوری مملکت ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہے ۔

ثبوت زیرنظرہے‘دنیاکہتی ہے کہ یہاں لوٹ مار‘ فراڈ‘اٹھائی گیری‘ ضمیرفروشی‘ملاوٹ‘ ڈاکہ زنی‘رشوت‘ قرضے ہڑپ کرنے‘بم دھماکوں اورقتل وغارت وغیرہ کی مکمل آزادی ہے۔ہم جمہوری اصولوںمیں بھی بہت حدتک آپ کے پیروکارہیں۔ اپنے نمائندوں کے چنائو کے معاملے میں ہم بہت ہی سخت اور میرٹ پسند واقع ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہم نے خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر جناب کی ہمشیرہ محترمہ کو بھی اپنی نمائندگی کی بارگاہ میں داخل نہ ہونے دیا۔

دنیاتوخیرکب چپ رہتی ہے ‘ وہ تواوربھی بہت کچھ کہتی ہے۔یہ بھی کہتی ہے کہ ضمیر کی خلش اور روح کے آزار سے آزاد ترقی کا سفر اس شان سے جاری ہے کہ ”نے ہاتھ باگ پر ‘ نہ پاہے رکاب میں ‘‘ …مگرہم مجاہدکب دنیاکی پروا کرتے ہیںبھلا؟

المختصرعالی جاہ! آپ کے خواب کا کوئی مول ہے ‘ نہ اس کی تعبیر کا کہ آپ فلاحی مملکت کاخواب دیکھتے رہے‘ ہم نے دفاعی ریاست بناڈالی؛البتہ آپ کے خیالات کے مطابق خودمختارریاست کی حیثیت ہم نے برقراررکھی ہے۔آپ کونویدہوکہ کشکول توڑدیاگیاہے اورکاسۂ گدائی اٹھالیاگیاہے۔قرضوں سے ملک چل رہا ہے اورچندے سے ڈیمز بن رہے ہیں۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).