ممی اور صرف دو بچے


ہمارے ولا کے نچلے فلور پر ایک عرب فیملی رہتی تھی۔ میرے گھر جتنے عرصے میں دو بچے آئے ان کے گھر چھ ہوئے۔ ذرا ذرا سے فرق والے ایک جیسے دکھنے والے پانچ۔ کچھ ہی عرصے میں انہوں نے چھوٹی گاڑی بیچ کر بڑی جی ایم سی لے لی جس میں سب بچے آرام سے اپنی اپنی چائلڈ سیٹ پر بیٹھ کر چلے جاتے۔ ایک جیسے نین نقش ایک ہی قد کاٹھ والے بچے میں بڑے شوق سے کھڑکی سے دیکھتی، کتنی پیارے لگتے مطمئن، ٹھنڈے ٹھنڈے، اپنے آپ میں مست بچے، اور آسودہ حال ممی، ٹھہرے ٹھہرے انداز والی، متانت والے چہرے والی بے فکر ممی۔

اور ایک میں تھی، پانچ سال کے وقفے سے دو بچے اور ہر وقت چیخ و پکار، ہر وقت جھگڑا، مجھے ہمیشہ چلانا پڑتا، ان کو چپ کروانا پڑتا، لڑائیوں کے فیصلے کروانے پڑتے، اور پھر بھی روتے دھوتے بچے ہر وقت سہنے پڑتے۔ تیوریاں ہر وقت ماتھے پر رہتیں، غصہ ناک پر اور مزاج سڑا ہو تھکا ہوا رہتا۔ دو بچے ہی نہ سنبھالے جاتے تھے پانچ کا کیسے سوچتی۔ نجانے یہ پانچ پانچ چھ چھ بچوں کی مائیں کیسے اتنی پرسکوں رہتی ہیں۔ وہ میری ہمسائی کے بیچارے سے بھولے سے معصوم سے بچے اور میرے، رعب والے غصیلے، پھوں پھوں کرتے، چہرے پر معصومیت نہیں، غصہ ٹپکتا۔
”آج کل کے بچے بہت غصیلے ہیں!“کسی دوست نے کہا۔
دوسری نے کہا“ قیامت کی نشانیاں ہیں بچے غصے والے پیدا ہوں گے۔ “

میں نے جب سے قیامت والی بات سنی کئی دن سوچتی رہی۔ ہاں یہی وجہ ہو گی۔ ہر ماں اپنے بچوں کے غصیلے پن کی شکایت کرتی ہے۔ سب کے ہی بچے چڑچڑے اور راجکمار ہیں۔ وہ بھی تو اک قیامت کی نشانی بتائی جاتی ہے ناں کہ مائیں آقا جنم دیں گی۔ جس کی ایک تعبیر یہ بھی دی جاتی ہے کہ بچے ماں باپ پر راج کریں گے۔

پھر یہ جن کے گھروں میں پانچ پانچ ہیں ان کے ممی ڈیڈی کو تو الٹے لٹک جانا چاہیے۔ مگر وہ ہم سے بہتر حالات میں کیوں دکھائی دیتی ہیں۔

جب فیملی میکنگ شروع کرنے کا ہمارا وقت تھا تو فیملی پلاننگ اک فیشن تھا، پڑھے لکھے، سمجھدار، مہذب نظر آنے کا اسیر نسخہ، “ دو سے زیادہ بچے؟ “ہنہ، پینڈو!جاہل!ان پڑھ!“۔ آس پاس کی سب چھ چھ آٹھ آٹھ بچے پالنے والی مائیں چاچیاں مامیاں بھی ایک ہی رخ دیکھ چکی تھیں سو سب اسی طرح رٹے سبق سنا دیتیں کہ بچے تو دو ہی اچھے۔ چناچہ ہم نے بھی سر اونچا کر کے دو ہی بچوں کی پلاننگ کی۔ پہلا بچہ پانچ سال تک ہتھیلی کا چھالا بنا کر پالا، اسے اٹھا اٹھا، جھولے جھلا خود کو تھکا لیا، کھلونوں سے کمرہ دائیں سے بائیں تک بھر دیا، جس طرف انگلی جاتی، شے حاضر ہو جاتی۔ ذرا سا فاطمہ منہ بسورتی باپ غصے سے پاگل ہو جاتا، ماں کو سو سو سنا دیتا، اور ذرا سا باپ کوئی فرمائش پوری نہ کرتا تو ممی طعنے دے دے کر جینا حرام کر دیتی۔

”ایک ہی بچی ہماری“

دن رات ایک کر کے، مشرق مغرب ملا کر یہ پانچ سال فاطمہ کو راجکماری بنا کر پالا تو یقینا اس کے چھوٹے سے ذہن نے یقین کیا ہو گا کہ وہ اس دنیا کی سب سے زیادہ چاہی جانے والی انمول، عظیم شہزادی ہے اور صرف ماں باپ ہی نہیں یہ ساری دنیا بھی شاید اسی کے لئے تو تخلیق کی گئی ہے۔ میں کھانا لیے اس کے پیچھے پیچھے پھرتی اور تین چار بچے ایک ساتھ ٹیبل پر بیٹھ کر آرام سے کھانا کھا لیتے۔ میں گھر کے کام کاج کے ساتھ فاطمہ کے ساتھ کھیلنے پر مجبور تھی اس کو وقت اور کمپنی دینا اک بڑی مصروفیت تھا چونکہ گھر میں وہ اکیلی تھی۔ وہ تنہا ہونے کی وجہ سے میری طرف دیکھتی اور مجھے اپنے کاموں کی ذمہ داریوں اور تھکاوٹ کے باوجود اس کے ساتھ ایسے بیٹھ کر کھیلنا پڑتا کہ نہ دل لگتا نہ دھیان۔ چار چار بچے خود آپس میں ہی کھیلتے رہتے۔ مائیں سکون سے اپنے کام کرتی رہتیں۔

تین سال بعد دوسرے بچے کی پلاننگ کرنے اور اس کے آنے میں دو سال کا مزید وقت لگ گیا۔ اور اکیلے گھر میں شہزادیوں کی طرح گھومتے فاطمہ پانچ سال کی ہو گئی جب تک نیا مہمان ہمارے آنگن میں اترا، نئی ذمہ داریوں، نئی روٹین اور نئی عادتوں کے ساتھ۔ اب اس گود میں اک اور ننھی پری تھی سو گود گود کھولتی فاطمہ کو گود سے اتارنا پڑا۔ اور نئے مہمان کی دن رات خدمت گزاری کے لیے وقت وقف کرنا پڑا۔

دوسرے بچے کی گھر میں آمد کے بعد پتا چلا کہ فاطمہ کس قدر غصیلی ہے، کسی کی بات ہی نہیں سنتی، اب وہی اس کی ہر بات پر لپکنے والے ماں باپ کو پتا چلا کہ اب اس کی ہر آواز پر پھرکی کی طرح گھومنا ہمارے لئے ممکن نہیں رہا۔

قصہ مختصر یہ کہ پانچ سال اکیلے اس سلطنت کی سب سے زیادہ چاہی جانے والی شہزادی بن کر رہنے کے بعد فاطمہ کے لئے اب محبت میں ساجھا دیکھنا ایک بہت ہی مشکل عمل تھا۔ جب دو مختلف عمر کے بچوں کو ایک ساتھ بٹھانے اور دوست بنانے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ کس قدر مختلف ہو گیا توقعات سے۔ چھ سالہ فاطمہ کی الگ مصروفیت تھی ایک سال آمنہ کی الگ ضروریات۔ دونوں کی عمر میں اتنا فرق تھا اور دونوں اس قدر مختلف حالات میں پلے تھے کہ طبیعت، مزاج، دلچسپی اور رویوں میں دونوں ہی اک دوجے کی ضد تھے۔ پانچ سال تک اکیلی رہنے والی فاطمہ اکیلی رہنے اور کھیلنے کی عادی ہو چکی تھی اور اسے دیکھ دیکھ بڑی ہونے والی آمنہ اسے ہر وقت متوجہ کرنے میں مگن۔

پھر یہی ہوا ایک روتی ہوی آگے آگے دوسری پیچھے پیچھے۔ جبکہ اوپر تلے پیدا ہونے والے بچے ایک دوسرے سے گھلے ملے، ایک جیسے، ایک سی طبیعت کے مالک دیکھتی، ایک دوسرے کے زیادہ قریب، ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ متوجہ۔ شاید اس لئے کہ ذہن، دماغ اور عادات کے اک خاص سمت اور شکل میں ڈھل جانے سے پہلے ہی دوسرا بچہ آن موجود ہوتا ہے اور اس سے پہلے اک بگڑنا شروع ہو وہ ساجھے داری کا عادی ہونے لگتا ہے۔ جبکہ تین سے پانچ سال تک ایک اکیلے بچے کو پال کر اس کی مکمل شخصیت، طبیعت اور عادتیں ٹھوس حالت اختیار کر لیتی ہیں اور پھر اس میں نئی شراکت داری اختیار کرنے اور مزاج بدلنے میں بے تحاشا مزاحمت محسوس ہوتی ہے۔

ان دنوں میرا تمام تر مطالعہ انگلش پیرنٹنگ کے میگزین اور سوشل میڈیا مغربی ماؤں کے بلاگز پڑھنے اور وی لاگز دیکھنے تک محدود تھا۔ یورپی، اور آسٹریلوی مائیں چار، پانچ اور چھ بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی فیملی بنا رہی تھیں اور ساتھ اپنی بلاگنگ اور بزنس بھی کر رہی تھیں۔ اور دوسری طرف ہم گھر بیٹھی ممیاں دو دو بچے پالنے میں ہلکان ہو رہی تھیں۔

ایک آسٹریلوی بلاگر سے اک بار پوچھا کہ چار اوپر تلے کے بچوں کے ساتھ آپ کی فوٹوگرافی اور فلم میکنگ کے لئے وقت کیسے نکلتا ہے تو جواب ملا۔ “بچے آپس میں کھیلتے رہتے ہیں میں اپنے کام کر لیتی ہوں“۔ اور ہم بچوں میں وقفہ رکھنے کے شوق میں دو بچوں کے ساتھ ماڈرن دکھنے کی خواہش میں اپنے بچوں کو تنہائی کا تحفہ دے رہے تھے۔ آتا ہے ناں ہمارے پاس مغرب سے گھس پٹ کر فرسودہ ہو کر علم۔ جب ہم نے دو بچوں کا فارمولا اپنانا شروع کیا مغرب اس کے نقائص دیکھ کر اسے رد کر رہا تھا۔ ایک ہی بستر پر چار چار بچوں کو ساتھ ساتھ سلانا مغرب اب سیکھ رہا ہے اور ہم نے اپنے بچوں کو نرسریاں اور الگ کمرے بنا کر ان کو کاٹس میں دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔

وہ بچوں میں وقفہ ختم کر کے بڑی فیملی بنا رہے ہیں اور ہم روٹیاں گن گن کر دو دو بچوں پر تمام تر تنہائیوں اور محبتوں کا بوجھ لادنے لگے ہیں جو نہ ہمارے بچے ڈھو پاتے ہیں نہ ہم خود۔ تو پھر جن بچوں کو نارمل حالات، نارمل پرورش اور نارمل توجہ نہ ملے گی یقینا ان کی شخصیت نارمل نہ بن سکی گی۔ کچھ محبتوں کی غیر ضروری فراوانی ہو گی تو عادتیں بھی بلا ضرورت بگڑتی ہی جائیں گی۔ جن کھلونوں سے چار بچے کھیل سکتے تھے ان کو ہم نے ایک دو کی جھولی میں بھر دیا۔ جس محبت سے پانچ بجے مکمل انسان بن جاتے ہم نے دو کے سر پر ہی لاد کر ان کو اشتعال انگیز اور ضدی بنا دیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2