عاطف میاں ! اقتصادی ماہر یا معاشی تباہ کار ؟


حالیہ دنوں ایک قادیانی عاطف میاں کی معاشی مشاورتی کونسل میں تقرری پھر تنزلی کے بعد سوشل میڈیا پر دو طرح کا عوامی ردعمل دکھائی دیا۔ عمومی ردعمل عاطف میاں کے قادیانی ہونے ، آئین پاکستان کو تسلیم نہ کرنے اور قادیانیت کے لئے بھرپور سرگرم کردار ادا کرنے کی وجہ سے اس کی تقرری کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا تھا ، لیکن کچھ روشن خیال ، لبرل اور بعض دانشور اس کی تقرری کو خوب سراہتے اوراس کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے کے ساتھ ساتھ مخالفین کو متشدد، اقلیتوں کے حقوق کی تلقین اور طرح طرح کی من گھڑت تاویلوں کے ساتھ اس کا دفاع کرتے رہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کاقادیانی ہونا اور آئین کی مخالفت اپنی جگہ بہت بڑا اور سنگین معاملہ ہے ، لیکن ایک اور بنیادی اور اہم مسئلہ’ جس کی طرف عاطف میاں کے غم خواروں اور ہمارے روشن خیال دانشوروں کو شاید دیکھنا بھی گوارا نہیں ۔ کیونکہ انہیں تو اس معاملے میں مذہب کی آڑ میں مسلمانوں پر تنقید سے فرصت ہی میسر نہیں ۔

ہمارے نام نہاد دانشوروں اور روشن خیالوں کا من پسند مشغلہ ہی یہی ہے کہ انہیں کوئی موقع ملناچاہئے اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کرنے کا۔ باقی مسائل کی حقیقت سے انہیں کیا سروکار؟ یہی وجہ ہے کہ وہ بس عاطف میاں کے عالمی ماہر معاشیات ہونے پر بغلیں بجاتے رہے ، کوئی ان سے پوچھے کہ یہ کیسی علمی قابلیت ہے جو دنیا کے مانے ہوئے بدترین استحصالی سامراجی ادارے کی غلامی میں انسانیت کو دھکیلنے پر مبنی ہے، کیا تبدیلی کے یہی علمی معیارات ہیں؟ عالمی ماہرین معاشیات کی رینکنگ کون جاری کرتا ہے؟ کتنے عرصے بعد جاری کرتا ہے ؟ یہ رینکنگ کن معیارات کی بنیاد پر جاری کی جاتی ہے ؟ اب تک کتنے لوگ اس فہرست میں شامل ہو چکے ہیں ؟ عاطف میاں دنیا کے 25 بہترین معیشت دانوں میں کیسے شامل ہو گیا ہے ؟ علمی قابلیت’ علمی قابلیت کاڈھنڈورا پیٹنے والے ان غمخواروں کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ یہ رینکنگ عالمی سامراجی ادارے آئی ایم ایف کی جاری کردہ ہے ۔ جس نے روئے زمین پر بالخصوص تیسری دنیاکے ترقی پذیرممالک کو اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے ۔ یہ رینکنگ غریب ممالک کو سرمایہ کاری کے جال میں جکڑ کر عوام کا خون چوسنے کی شہرت کے حامل بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے کچھ عرصہ پہلے جاری کی تھی۔ جن کے بارے میں آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ ”یہ وہ 25 لوگ ہیں جن سے توقع ہے کہ مستقبل میں عالمی معیشت کے بارے میں دنیا کی سوچ کو بہتر رخ دیں گے”۔ اب آئی ایم ایف کی اس فہرست کو دنیا کے بہترین ماہرین معیشت کی رینکنگ کیسے قرار دیا جا رہا ہے ؟اس سوال کا جواب تو عاطف میاں کی وکالت کرنے والے وہ روشن خیال دے سکتے ہیں یا پھر تبدیلی کی دعویدار وہ باشعور قیادت’ جو دشمنان شاہ مدینہ ﷺکے بل بوتے پر ریاست مدینہ تشکیل دینے چلی ہے ۔

تبدیلی سرکار’ جس نے قوم سے کشکول توڑنے اور اسے آزادی کے خواب دکھائے ، آج وہی تبدیلی سرکار بدنام زمانہ استحصالی ادارے آئی ایم ایف کے پروردہ اور اس کودنیا کا نجات دہندہ ثابت کرنے والے کو قوم پر مسلط کر کے اپنے دعوے کی حقیقت واضح کررہی ہے ۔ آئی ایم ایف کیا ہے ؟ اس ادارے نے غریب اور پسماندہ ممالک خصوصا ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے کون کون سے گھناؤنے کھیل کھیلے ہیں ؟ جس شخص سے آئی ایم ایف کو بہترین توقعات وابستہ ہیں کیا وہ آپ کو اس کے شکنجے سے نکلنے کی راہ فراہم کرے گا؟

عاطف میاں نے امریکی اداروں سے ہی تعلیم حاصل کی ہے ۔ اس نے اپنا پی ایچ ڈی کا تھیسیس مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی پروفیسر ابھیجیت بنیزجی (Abhijit Vinayak Banerjee) کی زیر نگرانی مکمل کیا۔جس کا موضوع پاکستان میں سرکاری اداروں کی نجکاری تھا۔ اور یہی نجکاری (پرائیویٹائزیشن ) آئی ایم ایف کا خصوصی مطالبہ ہے ۔معیشت کے میدان میں وہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا زبردست مداح ہے ۔ اُس نے بطور شریک مصنف House of Debt نامی کتاب بھی لکھی ہے جس میں بین السطور آئی ایم ایف کو دنیا کا معاشی نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا ہے ۔ گلوبلائزیشن یا عالمی معیشت کا عمومی مفہوم کمزور ممالک کی معیشت کو وہاں کے عوام اور حکومت کے کنٹرول سے نکال کر آئی ایم ایف اور ولڈ بینک جیسے اداروں کے حوالے کرنا ہے ۔ ایسے ماہرین کو تیسری دنیا کے کی کٹھ پتلی حکومتوں میں شامل کرایا جاتا ہے ، جس کے بعد ان ممالک کی سیاسی، سماجی پالیسیوں کو معیشت کے بل بوتے پر کنٹرول کرنا ممکن ہو جاتا ہے ۔ گویا یہ غلامی کی ایک بدترین قسم ہے جس میں یہ سامراجی ادارے اپنی ہوس زر کی تسکین کے لئے انسانیت سوز طریقے اختیار کرتے ہیں اور عاطف میاں جیسے نام نہاد معاشی ماہر’ جو دراصل معاشی تباہ کار ہیں ، ان کے دست وبازو کا کردارادا کرتے ہیں ۔اس حوالے سے ترقی پذیر اور غریب ممالک میں زبردست تشویش پائی جاتی ہے ۔ تویہ ہے اس قابل ترین معاشی ماہر کی حقیقت۔مگر ہمارے نام نہاد دانشوروں اور کشکول توڑنے کی دعویدار تبدیلی سرکار نے قوم کی آنکھوں میں قابلیت کی دھول جھونک کر اب تک کی سب سے بھیانک سازش اور گھناؤنا کھیل کھیل کر ملک وقوم کو آئی ایم ایف کی غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے ۔

عاطف میاں کی قابلیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر اس کی غم خواری میں مبتلا روشن خیالوں کو چاہئے کہ پہلے وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ایسے سامراجی استحصالی اداروں اور ان کے پروردہ ایجنٹوں کی حقیقت قوم کے سامنے لائیں ۔ محض اسلام کے بغض میں دنیا پر بدترین مظالم ڈھانے والوں کی حمایت عقل وشعور سے بے بہرہ ہونے کی دلیل ہے ۔زیادہ نہیں تو کم از کم آئی ایم ایف کے معاشی غارت گروں کے اعترافات ہی پڑھنے کی زحمت کرلیں ۔جس میں عاطف میاں جیسے سینکڑوں نام نہاد معاشی ماہرین کی چیرہ دستیاں آپ کی آنکھیں کھول دیں گی۔پا کستان میں آج سے قریبا دس سال پہلے آئی ایم ایف کے سابق معاشی تباہ کار جان پرکنز(John Perkins) کے اعترافات پر مبنی ایک کتاب ” THE SECRET HISTORY OF THE AMERICAN EMPIRE” جس کا اردو ترجمہ بھی ” امریکی تاریخ کے خفیہ اوراق ” کے نام سے پاکستان میں شائع ہواتھا۔ جان پرکنز ایک غریب اسکول ٹیچر کے گھر پیدا ہوا ، پیدائشی طورپر غصیلی طبیعت کا حامل ہونا ہی اس کو معاشی غارت گری ایسی سفاک ملازمت کی طرف لے گیا۔ لیکن جان پر کنز نے ”معاشی تباہ کار کے اعترافات ” نامی کتاب سے شہرت پائی ۔ اس نے اپنی کتاب میں امریکہ کی کارپریٹوکریسی کی بین الاقوامی سطح پر لوٹ کھسوٹ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ۔

امریکی تاریخ کے خفیہ اوراق میں اس نے لکھا کہ ” آج میں ماضی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ میری نفرت میری ملازمت کے حصول کی اصل وجہ تھی ۔ ایجنسیوں کے گھنٹوں طویل نفسیاتی امتحانات نے مجھے ایک سفاک معاشی تباہ کار بنا دیا تھا ۔ خفیہ جاسوسی ادارے نے یہ بھانپ لیا تھا کہ میں ہی وہ شخص ہوں جس کی نفرت کو سلطنت کے گھناؤنے منصوبے میں بھر پور طریقے سے استعمال کیا جا سکتا تھا ۔مجھے بین الاقوامی مشاورتی کمپنی چیس ٹی مین نے تیسری دنیا کولوٹنے والے کارکن کے طور پر بھرتی کیا تھا۔ تاکہ کار پریٹوکریسی کے ناپاک منصوبوں کو مکمل کیا جاسکے ۔مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مجھے خلاف قانون کچھ نہیں کرنا ہوگا۔ بلکہ اگر میں اپنا کام مہارت سے انجام دوں گاتو میری تعریف وتوصیف بھی کی جائے گی”۔جان پرکنزنے اپنی اس کتاب میں اعترافات کے ساتھ ساتھ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں کی گئی سازشوں کو بھی بیان کیا ہے ۔ جس میں اہمیت کا حامل نکتہ یہ ہے کہ ایک معاشی تباہ کار کس طرح مختلف ممالک کی حکومتوں کوسبز باغ دکھا کر کیسے آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دبانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔طاقتور لوگ کس طرح اپنی دولت کے ذریعے دنیا کے وسائل اور اقتدار پر قبضے کی کوششیں کرتے ہیں ۔طوالت کے خوف سے یہاں صرف ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے ، جس میں آئی ایم ایف کے پروردہ معاشی تباہ کاروں کی کارستانیوں کی معمولی سی جھلک آپ کو نظر آئے گی۔

انڈونیشیا کے تذکرے میں جان پرکنز نے لکھا ہے کہ’ ‘ ہماری خدمات کی بدولت انڈونیشیا ایک لائق تحسین ملک بنا۔ ہمارے دیئے گئے اعداو شمار کم افراط زر دکھا رہے تھے ، بیرونی کرنسی کے ذخائر 20بلین ڈالر سے تجاوز کر گئے تھے۔ تجارتی منافع 900ملین سے زیادہ تھا ، اس کے علاوہ بینکاری کامضبوط نظام وجود میں آگیا تھا۔ انڈونیشیا اوسطا 9فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کررہا تھا۔ اگرچہ یہ اعداد وشمار اتنے اچھے نہ تھے جتنا مجھے اپنی رپورٹس میں ظاہر کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ کیو نکہ مجھے اس حقیقت کا بھی علم تھا کہ یہ اعدادو شمار اس بھاری قیمت کی طرف قطعا نشاندھی نہیں کررہے جو اس ملک کے عوام نے اس معاشی معجزے کے لئے ادا کی تھی۔ کثیر فائدے صرف امراء تک محدود تھے ، قومی آمدنی میں تیز رفتار اضافہ مزدور طبقے کو نقصان پہنچا کر حاصل کیا گیاتھا۔ جب کہ غیر ملکی کارپوریشنز کو ان تمام کارروائیوں کی اجازت تھی جو ترقی یافتہ ممالک میں قانونا ممنوع ہیں ۔مگر لوگ معاشی ترقی کے فریب میں مبتلا ہوگئے تھے جیساکہ اس طرح کے معاملات میں ہوتاہے کہ پرکشش غیر ملکی قرضے ، تجارت کاموافق توازن، کم افراط زر اور متاثر کن کل قومی پیداوار ، یہ سب ایک مخصوص طبقے کی آسودگی کاسبب تو ضرور بنتا ہے مگر باقی آبادی کے لئے ایک کربناک عذاب۔ تو عاطف میاں کے غم خواروں کو چاہئے وہ اس حقیقت کی پردہ پوشی کے بجائے تصویر کایہ دوسرا رخ بھی قوم کے سامنے لائیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).