بیگم کلثوم نواز کا انتقال اور حکومتی ردعمل


بیگم کلثوم نوازشریف وفات پا گئیں۔ وہ لوگ، جو ان کی بیماری کو ڈرامہ اور نواز شریف صاحب کی جانب سے ہمدردی سمیٹنے کی کوششش قرار دے رہے تھے، کیا ان کے معافی مانگنے اور توبہ تائب ہونے کا وقت ابھی نہیں آیا؟

کچھ بد قسمت شاید اب بھی کہیں گے کہ یہ تو پہلے سے وفات پا چکی تھیں اور ہسپتال میں رکھی گئی تھیں تاکہ مناسب وقت پر ان کے موت کا اعلان کرکے ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں۔ ایسے لوگوں پر اوران کی ذہنیت پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

جو بھی ایسی باتیں پھیلانے کا سوچ رہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم پاکستانی اپنے پیاروں کی موت کے وقت کی ہمدردی اور بے رخی یا زیادتی کو کبھی نہیں بھولتے۔
ان جیسی بہادر اور باکردار عورت کی موت قوم کے لیے ایک عظیم نقصان تو ہے ہی، نواز شریف صاحب اور ان کی بیٹی و دیگر خاندان والوں کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔

ان کی موت سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ ان کو مرض الموت میں بے ہوشی کی حالت میں چھوڑ کر اور قانون کے سامنے خود کو پیش کرنے کے لیے پاکستان آکر نواز شریف صاحب اور مریم نواز شریف نے کتنی بڑی قربانی دی تھی۔ یہ کتنا مشکل کام تھا، ہے اور ہوگا اس کا احساس کسی بھی اس شوہر، بیٹے یا بیٹی کے لیے مشکل نہیں جسے اپنی بیوی اور ماں کو موت و حیات کی کشمکش میں یوں چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑے۔

ایسا کرکے نواز شریف اور مریم نواز نے قانون کے سامنے سرنگوں ہونے کی ایک اعلی ٰروایت قائم کی ہے۔ اس کو سراہا جانا چاہیے۔ جناب نوازشریف اور ان کی بیٹی کو بیگم کلثوم مرحومہ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے پیرول پر رہا کیا جانا چاہیے۔ اس کی قانون میں اجازت موجود ہے۔ موت جیسی چیز کو امید ہے سیاست سے بالاتر رکھا جائے گا۔

وزیر اعظم عمران خان کو نہ صرف ان کے جنازے میں شرکت کر لینی چاہیے بلکہ نوازشریف سے رابطہ کرکے اور ان سے مل کر تعزیت بھی کر لینی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).