عمران خان کے خلاف پروپیگنڈا اور ڈیم کا چندہ


عمران خان کے خلاف اس کے سیاسی مخالف کیسا کیسا رکیک پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں۔
”وہ شخص جو اپنا گھر نہ سنبھال سکا ملک کیا خاک سنبھالے گا۔ جو اپنی پہلی بیوی کو نہ سنبھال سکا، جو اپنے بچوں کو نہ سنبھال سکا۔ جس کے منہ سے شراب کی بد بو آتی ہے۔ دنیا کا سب سے مہنگا نشہ ”کوکین ‘‘ کا عمران خان کرتا ہے۔ عاشقی معشوقی میں ریحام خان سے شادی بھی کرلی۔ یہ وہی شخص ہے جس سے ریحام خان بھی نہ سنبھلی اور وہ بھی اس کو چھوڑ کر چلی گئی۔ جی ہاں بنی گالا اس کا گھر نہیں بلکہ ایک ڈیٹ پوائنٹ ہے۔ جی ہاں یہ وہی شخص ہے جس نے اپنی پیرنی سے شادی بھی کی۔ اس عورت سے شادی کی جس نے نہ دنیا دیکھی نہ اولاد دیکھی اور نہ 32 سال تک ساتھ دینے والے شوہر کی طرف دیکھا۔

کیا وجہ تھی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عمران خان سے شادی رچالی اور وہ بھی عمر کے اس حصے میں جب پتا نہیں کب اوپر سے بلاوا آجائے۔ اچھا جی آگے چلتے ہیں۔ 2013 کے الیکشن میں ناکامی ہوئی تو دھاندلی کا رونا ڈال دیا اور ملک کا وقت اور پیسہ ضائع کیا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں 126 دن لوگوں کو لے کر بیٹھا رہا، ملک کی معیشت کا نقصان کیا۔ لوگوں کے گھر اجاڑے۔ طلاقوں کے کیس سامنے آئے، کئی لوگوں کی لڑکیاں بھاگ گئیں کیونکہ وہاں اسلام آباد دھرنے میں آنکھ لڑگئی بس پھر دھرنا ختم اور شادی کے شامیانے شروع۔ چائنہ کا صدر پاکستان نہیں آیا کیونکہ اسلام آباد میں دھرنا تھا، ملکی سیکیورٹی صورت حال ٹھیک نہیں تھی۔ بعد میں جب آیا تو پاکستان ائیرفورس کے جیٹ طیاروں نے پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہی اپنی حفاظتی حصار میں لے لیا۔

وزیر اعظم بنا تو کابینہ میں وہ لوگ شامل کیے جن کو کسی چیز کی کوئی خبر نہیں تھی جن کو حکومت چلانا تو دور حکومتی کرسی پر بھی بیٹھنا نہیں آتا۔ اور تو اور جناب اپنی حلف برداری میں اپنی عینک کو شیروانی کی جیب میں لگانا بھول گیا اور حلف نامہ پڑھنے کے لیے شیروانی کے نیچے پہنے ہوئے کرتے کی سائیڈ والی پاکٹ سے اپنی عینک نکال رہا تھا۔ حد نہیں ہوگئی ویسے جب پوری دنیا آپ کی طرف متوجہ ہو، سرکاری ٹی وی چینل پر آپ لائیو نظر آرہے ہوں تو وہاں یہ سب کرنا زیب نہیں دیتا۔ اور تو اور موصوف کو گارڈ آف آنر بھی نہیں لینا آتا اسے پتا ہی نہیں کہ گارڈ آف آنر کے وقت آپ کی چال کیا ہونی چاہیے، آپ نے کتنے قدم اٹھانے کے بعد رکنا ہے اسے کچھ پتا نہیں اور چلا ہے ہمارا ملک چلانے۔ موصوف کو جو بھی سفیر ملنے گیا اسے خالی چائے اور بسکٹ پر ٹرخا دیا۔ اس کو اچھا کھانا ہی نہیں کھلایا کیا سوچتا ہوگا وہ بے چارہ واپس جا کر وہ اپنے ملک میں جا کر ہماری کیا امیج بتائے گا؟

سونے پہ سہاگا ہوگیا کہ موصوف نے پاکستان میں ڈیم بنانے کے لیے سات سمندر پار پاکستانیوں سے چندہ مانگ لیا۔ لو جی جناب وزیراعظم نے تو ہماری ناک ہی کٹوا دی پوری دنیا کے سامنے اسے پتا ہی نہیں کہ ڈیم چندے سے نہیں بنتے، وہ سمجھتا ہے کہ جیسے شوکت خانم چلاتا ہے چندے سے ویسے ملک بھی چلا لے گا۔ یہ کیسا وزیراعظم پاکستان میں براجمان ہوگیا ہے یہ ملک کیسے آگے بڑھے گا؟“
یہ سب وہ باتیں ہیں جو عمران خان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک پروپیگنڈے کے تحت کی جا رہی ہیں۔

ایک لمحے کے لیے ان باتوں کو بھول کر اگر ہم یہ سوچ لیں کہ وہ کس کے لیے کر رہا ہے؟ اس کی بیوی ملک سے باہر، اس کے بچے اس کے پاس نہیں۔ بنی گالا وہ ٹھنڈا مقام ہے کہ جہاں ساری زندگی آرام سے رہ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ لڑ رہا ہے اور پاکستان کے لیے کھڑا ہوگیا اور آج کامیاب بھی ہوگیا۔ یہ وہی عمران خان ہے جس نے کرپشن کے خلاف جنگ لڑی۔ یہ وہ عمرا ن خان ہے جو آج وزیراعظم بنا تو اپنے ملک کو سنوارنے کے لیے۔ جی ہاں عمران خان نے کابینہ میں وہ لوگ شامل کیے جن کو کچھ پتا نہیں سیاست کا اس لئے شامل کیے کہ ان کو پتا چلے کہ سیاست کیا ہے حکومت کیا ہے۔

ڈیم کے لیے پیسہ مانگ کر اس نے کون سا غلط کام کردیا، عمران خان پر ڈیم فنڈ کے لیے وہ لوگ بھی تنقید کرتے نظر آرہے ہیں جو ایٹم بم کا کریڈٹ لیتے ہیں، وہ لوگ جنہوں نے ”قرض اتارو۔ ملک سنوارو‘‘ کیمپئین چلائی اور کروڑوں ڈالرز اکٹھے کیے اور بعد میں نہ قرض اتارا گیا اور نہ ان پیسوں کا کچھ پتا چلا کہ کدھر گئے۔ تنقید کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو سی پیک تھالی میں رکھا ہوا ملا اور آج اس کا کریڈٹ لیتے ان کی زبان نہیں تھکتی، آصف علی زرداری نے سی پیک کی خاطر چین کے چھ دورے کیے۔ جس موٹر وے کا نام جپتے تنقید کرنے والوں کا منہ نہیں تھکتا اس کی منظوری اور کام بے نظیر بھٹو نے شروع کروایا۔ ایٹم بم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا اور دھماکے کر کے میاں صاحبان نے کریڈٹ اپنے نام کیا۔ آج وہ عمران خان کے اپنے ہی ملک کے لوگوں کے سامنے اپیل کو تنقید نشانہ بنا رہے ہیں جو کشکول ہاتھ میں لیے باہر جا کر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں خیرات ڈال دیں اور اس وقت ڈوب کے مرجانے کے لیے بھی ان کے پاس پانی نہیں ہوتا ایک چلو بھر بھی۔

وہ لوگ جو غیر ملکی خاتون اول کا سیلاب زدگان کے لیے دیا ہوا ہیروں سے بنا ہار اپنی بیوی کے گلے میں ڈال دیتے ہیں آج وہ عمران خان کے ڈیم فنڈ اپیل پر تنقید کرتے نظر آرہے ہیں۔ وہ لوگ تنقید کرتے نظر آتے ہیں جن کے گھروں میں آج بھی صاف پانی نہیں آتا۔ ڈیم کا منہ بنی گالا کی طرف نہیں ہوگا اس کی ضمانت میں بھی دے سکتا ہوں۔ غیر ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے انسان اپنے لوگوں کے پاؤں پکڑ کر پیسہ لے لے۔ عمران خان کو اگر اوورسیز پاکستانیوں سے فنڈ لینے کی خاطر دو یا چار ملکوں کا دورہ بھی کرنا پڑے تو اسے کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ وہ غیر اسلامی ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔

جب کوئی جان لیوا بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو اس کے علاج کی اگر خود میں سکت نہ ہو تو سب سے پہلے قریبی عزیز رشتہ داروں کی طرف ہاتھ بڑھایا جاتا ہے نہ کہ کسی غیر کی طرف۔ بالکل ویسے ہی عمران خان نے اپنے پاکستانیوں سے اپیل کی ہے۔ یہ نہیں کہا کہ کوئی غیر ملکی بھی مجھے فنڈ دے۔ عقل کے اندھے تنقید کرتے کہتے ہیں کہ ڈیم فنڈ سے نہیں بنے گا۔ ایک لمحے کے لیے مان بھی لیا جائے کہ ڈیم فنڈ سے نہیں بنے گا قرض لینا بھی پڑا تو کم سے کم لیا جا سکے۔ اپنے ملک کے اوپر جو پہلے ہی بوجھ تلے دبا ہے اس کے اوپر کم بوجھ ڈالا جائے۔

جب ان لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں جو پیسے دے رہے ہیں ملک کی خاطر تو ہم ملک کے اندر رہ کر صرف اپنی ایک زبان بند نہیں رکھ سکتے؟ اگر ہم خود کچھ اس ملک کے لیے نہیں کر سکتے تو کم از کم ان لوگوں کو تو کرنے دیں جو کرنا چاہتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیز کا ری ایکشن دیکھنے کے قابل ہے اور قابل تعریف ہے میرے عزیز چاچو جو ان دنوں دبئی میں مقیم ہیں انہوں نے عمران خان کی بات پہ لبیک کہتے ہوئے ایک ہزار ڈالر ڈیم فنڈ میں جمع کروا دیا۔ آرمی چیف نے پاکستان کی افواج کی طرف سے ایک ارب انسٹھ لاکھ روپے کا چیک چیف جسٹس کے حوالے کیا۔

ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ کوئی تو ملا جس کو ہماری نسلوں کی فکر ہے، جس کو ہمارے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے نہ کہ ماضی کی طرح ایسے حکمران جن کو پاکستان کی نہیں، ہماری نہیں، ہمارے بچوں کے مستقبل کی نہیں بلکہ اپنے پیٹ، اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر لاحق رہی اور وہ پیسہ جو ہمارا ہے آج وہ باہر کے بنکوں میں پڑا ہے کرپشن اور لوٹ مار کرکے باہر بھیج دیا بچوں کے نام پہ اور ہم آج سے 30 سال پہلے جہاں کھڑے تھے اس سے بھی نیچے آگئے ہیں۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جن کو بیرونی طاقتوں سے نہیں بلکہ ہمارے ملک میں موجود ان کرپٹ طاقتوں سے خطرہ ہے جو نہ خود کچھ کرتی ہیں اور کسی کو کرنے دیتی ہیں۔ عمران خان جتنا برا انسان اس دنیا میں نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ہماری آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ وہ اس لیے برا لگ رہا ہے کیونکہ وہ ہماری نسلوں کو وہ سہولتیں دینا چاہتا ہے جو ہم آج سے پہلے نہیں دے پائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).