امریکہ کی غداری کا تاریخی پس منظر


دنیامیں شاید پاکستان واحد ایسا ملک ہے جسے امریکہ نے ہمیشہ اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد دھوکہ دیا اور پاکستان نے بھی ہر دفعہ خوشی خوشی دھوکا کھایا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیاتو اس کے سامنے صرف دنیا کے دو طاقتور کیمپ امریکہ اور سوویت یو نین کے آپشن موجود تھے۔ لیکن پاکستان نے امریکن کیمپ کو چنا اور اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان روس کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ کے دورے پر چلے گئے۔

1954ء میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک میوچل ڈیفنس معاہدہ طے پایا جس کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کے خلاف تحفظ سمجھا۔ اسی طرح پاکستان سو ویت یونین کے خلاف امریکہ کی سرپرستی میں بنائی گئی دو تنظیموں سیٹو اور سینٹو میں بھی شامل ہو گیا۔ یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی تھی کہ اس نے صرف اور صرف امریکہ پر اکتفا کیا اور سو یت یونین کی ناراضگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مول لے لیا۔ اس کے برعکس انڈیا نے ان دونوں طاقتور کیمپوں میں سے کھلم کھلا کسی ایک میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ دونوں کے ساتھ ذاتی مفادات کے لیے ایک بیلنس تعلقات استوار کیے۔

پاکستان نے تو امریکہ کو اپنے ائیر بیس بھی دے دیے جہاں سے امریکی سپائی جہاز اڑکر سو ویت یونین کی نگرانی کرتے تھے۔ پا کستان کو اپنی ان غلط پالیسیوں کا مزہ 1965 ء کی جنگ میں چکھنا پڑا، جب امریکہ نے پاکستان کی نا صرف مدد کرنے سے انکار کر دیا بلکہ انڈیا اور پاکستان دونوں پر اقتصادی اور اسلحہ کی پابند یاں عائد کر دیں۔ ان پابندیو ں کا نقصان صرف پاکستان کو پہنچا کیونکہ روس انڈیا کی کھلی مدد کرتا رہا۔

اسی طرح 1971 ء کی جنگ میں بھی سو ویت یونین نے انڈیا کی بھر پور مدد کی لیکن پاکستانی اتحاد ی امریکہ کا پاکستان کی مدد کے لئے آنے والا ساتواں بحری جہاز آج تک نہیں پہنچا۔ اس کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نیو کلیر پاور بنانا چاہا تو اسے امریکی دھمکیوں اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب 1979ء میں سو ویت یونین نے افغا نستان پر حملہ کیا تو امریکہ کو پاکستان کی یاد پھر آئی اور ایک فوجی آمر کی حکمرانی میں پاکستان نے بھی بنا سوچے سمجھے امریکہ کی جنگ لڑنے کی ٹھان لی۔ ضیاء الحق نے امریکہ سے کہا کہ ڈالر اور اسلحہ تمہارا، بندے ہمارے لڑیں گے۔

سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے پوری دنیا سے کوئی پچیس، تیس ہزار مجاہدین اکٹھے کیے اور انہیں پاکستانی زمین پر ٹریننگ دی، اسلحہ دیا اور ان کو افغان جنگ کا حصہ بنا دیا۔ سو ویت یونین کو افغا نستان میں شکست ہوئی۔ اس طرح امریکہ کا مشن مکمل ہوا اور اسے پاکستان کی مزید کوئی ضرورت نہ رہی۔ اس کے فوراً بعد پاکستان پر امریکہ نے پریسلر امینڈمنٹ کے تحت پابند یاں عائد کر دیں۔ افغان جنگ کے نتیجہ میں پاکستان میں کلاشنکوف کلچر اور منشیات کا استعمال عام ہوا۔ امریکہ نے پاکستان کو ان پچیس تیس ہزار مجاہدین کے رحم و کرم پر اکیلا چھوڑ دیا۔

1998ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کر دیے اور جب پاکستان نے اپنی سا کھ کو برقرار رکھنے کے لیے جوابی نیو کلئیر ٹیسٹ کیے تو امریکہ نے پاکستان پر پھر سے پابندیاں عائد کر دیں۔ کچھ عر صہ بعد 9/11 کا واقع رونما ہواتو امریکہ کو پھر سے پاکستان کی یاد ستانے لگی اور اس نے پاکستان پر لگائی گئی گذشتہ پابندیاں ختم کر دیں۔ امریکہ نے اب افغانستان میں اپنے ہی تیار کردہ مجاہدین کو دہشت گردقراردے کر ان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد چاہی۔ بد قسمتی سے اس وقت پھر پاکستان پر ایک فوجی ڈکٹیٹر قابض تھا۔ مشرف نے ڈالرز اور اپنی غیر قانونی حکومت کے حق میں امریکی سپورٹ کے عوض امریکہ کو ہوائی اڈووں کے ساتھ ساتھ اسلحہ کی سپلائی کے لیے زمینی رستے بھی دے دیے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اس یو ٹرن کے عوض پاکستان اب تک 70ہزار سے زائد جانوں اور کئی بلین ڈالر کا مالی نقصان اٹھا چکا ہے۔

مشرف دور ختم ہواتو ساتھ ہی امریکہ میں بش حکومت کی بھی مدت پوری ہوئی۔ اب امریکی عوا م بھی جنگوں سے چھٹکارا چاہتے تھے۔ اس لیے اوبامہ اور حا لیہ صدر ٹرمپ نے اپنی الیکشن کمپین میں امر یکن جنگیں ختم کر نے کے وعد ےکیے۔ لہذا امریکہ نے افغانستان میں اپنی شکست کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ تاہم ایک تو امر یکہ اپنی شکست قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور دوسرا وہ چائینہ کو کنٹرول کرنے کیلٰے ساؤتھ ایشیاء میں اپنی ماجودگی کو بر قرار رکھنا چاہتا ہے۔

اس ضمن میں امریکہ اور بھارت دونوں افغانستان پر اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کیلے کنٹرول چاہتے ہیں۔ امریکہ انڈیا کو چین کے خلاف ساؤتھ ایشیاء کی ایک مضبوط جنگی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ بھارت، چین اور پاکستان دونوں کو اپنا روایتی حریف گردانتا ہے۔ پس دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اس لئے امریکہ اور انڈیا کے باہمی مفادات دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لائے ہیں۔ ایسی صورت حال میں امریکہ پاکستان کو۔ ڈو مور۔ ۔ کے پیغامات دیتا ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان کی 300 ملین ڈالر کی ا یڈ بھی روک لیتا ہے۔ امریکہ نے پاکستانی فوجیوں کواپنے ملک میں ٹریننگ دینے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ کیا امریکہ نے پاکستا ن کے ساتھ د وبارہ وہی کچھ نہی کیا جو کہ افغان جہاد کے ختم ہونے کے بعد 1990 کی دہا ئی میں کیا تھا؟ امریکہ اب انڈیا کے ساتھ فوجی معاہدے کر رہا ہے جس کے تحت وہ انڈیا کو حساس فوجی ٹیکنالوجی، میزائل سسٹم اور اہم جنگی جہاز دے رہا ہے اور اس سے بھی بڑھ کروہ انڈیا کو ایک بہت ہی اہم نیوکلر سپلا ئر گروپ کا بھی حصہ بنانے کے لئے مکمل سپورٹ کر رہا ہے۔

انڈیا کو اقوام متحدہ کے سب سے اہم ادارے سیکیورٹی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے میں بھی امریکہ کی مدد حاصل ہے۔ ایسا کرتے وقت اسے پاکستان کے تحفضات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ امریکہ آج کل پاکستان کے خلاف انڈیا کی زبان بول رہا ہے۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی واضح ناکامی ہے۔ اب پاکستان کو ماضی میں بار بار دہراہی گئی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لہذا عصر حاضرمیں ہمیں چین کے علاوہ روس کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ روس نے مسئلہ کشمیر پر کئی دفعہ انڈیا کے لئے اقوام متحدہ میں ویٹوکیا ہے۔ کیا کبھی امریکہ نے پاکستان کے لئے ایسا کیا ہے؟ امریکہ تو بلکہ ہمیں مشورہ دیتا ہے کہ اقوام متحدہ میں نہیں بلکہ انڈیا اور پاکستان کو آٓپس میں مل کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے، اور یہی ایجنڈا انڈیا کا بھی ہے۔ پس پاکستان کو ایک متحرک اور کامیاب خا رجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ معیشت کی مضبوطی پر زور دینا چاہیے۔ ہماری لیڈرشپ اورپالیسی سازوں کو یہ بات باور کر لینی چاہیے کہ خارجہ تعلقا ت میں دشمن یا دوست مستعقل نہیں ہوتے بلکہ صرف قومی مفادات کا تحفظ مستقل بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی شخصیت کی بجائے قومی مفادات کا تحفط اولین تر جیح ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).