بیگم کلثوم نواز کی رحلت: پاکستان کے نظام عدل پر سوالیہ نشان


تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز طویل علالت کے بعد لندن میں انتقال کرگئی ہیں۔ حکومت اور فوج کے سربراہان کی طرف سے ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان نے لندن کے میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو مرحومہ کی میت پاکستان لانے کے سلسلہ میں ہر قسم کی معاونت فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے خیر سگالی کا یہ اظہار خوش آئند ہے لیکن ملک کی اہم پارٹی کے لیڈر اور تین بار اعلیٰ ترین سیاسی عہدہ پر کام کرنے والے رہنما کے خلاف جس طرح عدالتی نظام کو استعمال کیا گیا ہے اور ایک ایسے وقت میں جبکہ نواز شریف کی اہلیہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھیں، انہیں جیل میں قید کر کے ان کی زندگی کے آخری ایام میں 46 برس تک رفیق حیات رہنے والی خاتون کے ساتھ وقت بتانے سے روکا گیا ہے، وہ ملک کے نظام عدل پر سنگین سوالات سامنے لاتا ہے۔

اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ نواز شریف ایک مجرم کی بجائے سیاسی قیدی ہیں۔ ان کے سیاسی فیصلے اور طرز عمل ملک کی ہیئت مقتدرہ کو قبول نہیں تھے جس کی وجہ سے 2013 میں بھاری اکثریت سے انتخاب جیتنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لئے مسائل پیدا کئے گئے اور عمران خان کی صورت میں  حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج اور دباؤ کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ پاناما پیپرز کی صورت میں عمران خان کے علاوہ درپردہ اقتدار کی بساط پر مہرے ہلانے والوں کو ایک انمول موقع ملا جس کے ذریعے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد قید کی سزا سنائی گئی اور اب وہ اپنی صاحبزادی اور داماد کے ساتھ اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ جبکہ سزا کے خلاف ان کی اپیلوں پر فیصلہ ’مؤخر‘ کردیا گیا ہے۔ اس سارے معاملہ میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو بھی قانون کے مطابق ان کے عہدے سے نکالنے کی بجائے سپریم کورٹ کو سو موٹو اختیار یعنی آئین کی شق 184 (3) کے تحت کارروائی کرتے ہوئے اور ذاتی اخلاقیات کی شق 62 (1) ایف کو بروئے کار لاتے ہوئے بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے شخص کو اقتدار سے علیحدہ کرنا پڑا۔ اسی طرح احتساب عدالت کی کارروائی سپریم کورٹ کی خصوصی نگرانی میں منعقد کروا کے اور اس کے لئے وقت کی حد مقرر کرکے بھی نواز شریف اور ان کے خاندان کو عبرت کا نشان بنانے کا اہتمام کیا گیا۔ نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے پہلے سپریم کورٹ نے اکثریت کی بنیاد پر کئے جانے والے ایک فیصلہ میں ایک خصوصی جے آئی ٹی کے ذریعے نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف معاملات کی جانچ پڑتال کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ اس جے آئی ٹی میں ارکان کی نامزدگی کے طریقہ کار کے حوالے سے اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں لیکن قانون کی بالادستی کی پاسبان ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے ان اعتراضات کا شافی جواب فراہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ روز اس طرف اشارہ کیا ہے کہ سو موٹو اختیار کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دائرہ کار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آئین میں سپریم کورٹ کو یہ اختیار بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے دیا گیا تھا لیکن بحالی عدلیہ تحریک کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے جس طرح بے دردی سے اس اختیار کا استعمال کیا، اس پر ملک کے ماہرین قانون اور وکلا کی تنظیموں نے بھی صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ گزشتہ کافی عرصہ سے سپریم کورٹ سے یہ گزارش کی جارہی ہے کہ اس اختیار کی حدود کا تعین ہونا چاہئے اور چیف جسٹس کو فل کورٹ کے اجلاس میں اس حوالے سے مختلف ماہرین اور تنظیموں کے دلائل سننے کے بعد کوئی صائب فیصلہ کرنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے جب ایک منتخب حکومت کے خلاف اس اختیار کے تحت کارروائی کا آغاز کیا تھا، تب بھی یہ سوال سامنے لایا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے خود کو آئینی طاقت کا واحد مرکز قرار دیتے ہوئے ان اعتراضات پر کوئی سوال سامنے لانے کی اجازت نہیں دی ۔

 ملک کا آئین اگر سپریم کورٹ کو آئین کا محافظ قرار دیتا ہے اور شق 184 (3) کے تحت اسے بنیادی حقوق کے تحفظ کا اختیار دیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ملک کی پارلیمنٹ کو قانون و آئین سازی کا حق بھی اسی آئین میں دیا گیا ہے۔ یہی آئین ملک میں جمہوری نظام اور عوام کے حق انتخاب کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدالتیں 1973 کے بعد منتخب ہونے والی حکومتوں کے خلاف دو مرتبہ آئین شکنی کرنے والے فوجی سربراہوں کی عہد شکنی اور عوامی انتخاب کو مسترد کرنے کے اقدام کو نام نہاد ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت جائز قرار دے چکی ہیں۔ لیکن پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے آئین سے درگزر کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس طریقہ کے تحت فوج نے براہ راست تو مداخلت نہیں کی لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے ایک منتخب حکومت کے خلاف ویسا ہی طرز عمل دیکھنے میں آیا جو اس سے پہلے فوج کے سربراہان کسی حکومت کو بدعنوان قرار دے کر اسے رخصت کرنے کی صورت میں اختیار کرتے تھے۔ یہ رویہ آئین کی روح کے منافی اور اصول قانون کے برعکس ہے۔

اس معاملہ میں یہ پہلو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں جے آئی ٹی بناتے ہوئے خاص طور سے فوج کی دو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائیندوں کو اس میں شامل کیا اور انہی نمائیندوں کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ایک منتخب لیڈر کو معزول کرنے کا ڈرامائی فیصلہ بھی کیا گیا ۔ سابق وزیر اعظم کے بارے میں عدالتی فیصلوں میں ایسی زبان استعمال کی گئی جو قانون کی عکاس ہونے کی بجائے اخلاقیات کی کسی کتاب کا لب و لہجہ لگتی ہے۔ نواز شریف کو معزول کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت اگرچہ قومی اسمبلی میں اپنی آئین مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی لیکن سپریم کورٹ اور عسکری اداروں نے اس کے لئے کام کرنا مشکل کردیا تھا۔ یہ بات اب چہار جانب سے کہی جارہی ہے کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے ہی یہ انتظامات کرلئے گئے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کسی طرح انتخاب نہ جیت سکے۔ احتساب عدالت سے فیصلہ لے کر نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابی میدان سے باہر کرنے کا اقدام ملک کے جمہوری عمل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہؤا۔ اس طرح تحریک انصاف کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کو ایک جج کے ذریعے دور کردیا گیا۔

احتساب عدالت کا فیصلہ انتہائی کمزور بنیاد پر استوار ہے۔ نواز شریف کا نام نہ پاناما پیپرز میں موجود ہے اور نہ ہی ان کے خلاف استغاثہ بد عنوانی یا اختیارات سے تجاوز کرنے کا کوئی جرم ثابت کرسکا ہے۔ عدالت نے صرف اس اندیشہ پر کہ نواز شریف اپنی معلوم آمدنی سے بہتر زندگی گزارتے ہیں، انہیں دس برس قید کی سزا دی ہے۔ لیکن جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی کارروائی کے دوران یہ بات سامنے لائی گئی ہے کہ احتساب عدالت نے اپنے دعوے کے جواز میں کوئی ثبوت و شواہد پیش نہیں کئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ان بے بنیاد سزاؤں کو معطل کرنے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ رکھ کر اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی و داماد اس وقت تک قید رہیں جب تک اس بات کا اندیشہ موجود رہے کہ وہ سیاسی طور سے نو منتخب حکومت کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کو اگرچہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں چالیس پینتالیس لاکھ زیادہ ووٹ ملے ہیں لیکن اس کامیابی کی ایک وجہ نواز شریف اور مریم نواز کا منظر نامہ سےغائب ہونا تھا اور دوسری بڑی وجہ یہ رہی کہ عوام کو یہ باور کرنے پر مجبور کردیا گیا کہ شریف خاندان بدعنوان ہے اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس لئے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے صرف اس وجہ سے تحریک انصاف کو ووٹ دئیے کہ عمران خان اس سے پہلے برسر اقتدار نہیں رہے اور ان کی شہرت اچھی ہے۔ یا یہ کہ انہیں ملک کے طاقت ور اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان اداروں میں سپریم کورٹ بھی شامل ہو چکی ہے۔

جمہوری نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی اس سے بھیانک اور افسوسناک مثال دیکھنے میں نہیں آئی۔ بالواسطہ طور سے ایک منتخب حکومت کے خلاف عدالتوں کو استعمال کرکے سیاسی نتائج حاصل کرنے کی جو کوشش کی گئی ہے، اور جسے جمہوریت قرار دے کر ملک کی ترقی کی پیش گوئی کی جارہی ہے، وہ دراصل استبدادیت کی طرف ایک قدم ہے جو جمہوریت کا راستہ مسدود کرتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے والا ایک شخص بھی اس قدر بے اختیار اور بے اعتبار بنایا جاچکا ہے کہ اسے اپنی مرتی ہوئی اہلیہ کے ساتھ زندگی کے آخری لمحات گزارنے کے حق سے محروم کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali