آئیے، ناصر عباس نیر سے نظم پڑھنا سیکھیں


‘ادب کیسے پڑھیں؟ ‘، ’نظم کیسے پڑھیں؟ ‘، ‘ناول کیسے پڑھیں‘ اور اس سے ملتے جلتے دیگرعنوانات پر مغرب میں کئی ایک کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں پہلے دوعنوانات پر برطانوی نقاد اورتھیورسٹ جناب ٹیری ایگلٹن کی دو مختلف کتابیں بالترتیب دو ہزار چودہ اور دو ہزار چار میں شایع ہوئیں۔ ٹیری ایگلٹن سے بھی پہلے سِن انیس صد ننانوے میں ’نظم کیسے پڑھیں، اور شاعری کی محبت میں کیسے گرفتار ہوں؟ ‘ کے عنوان سے معروف امریکی شاعر ونقادایڈورڈ ہرش کی کتاب بھی خاصی شہرت پا چکی تھی۔ ان دونوں کتابوں میں بالعموم اور ہرش کی کتاب میں بالخصوص نئی شاعری کی پڑھت کے اطوار، مسائل، رکاوٹیں اور ان سے نمٹنے کے حیلے بڑے سادہ و سہل اندازِ بیان میں تحریر کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ان کتابوں کے مطالعات سے یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ قدیم و جدیدمغربی شاعریوں میں کِن نوعیتوں کے اختلافات و امتیازات در آئے جن سے نئی شاعری کو پڑھنے کے لیے ناقد کی مدد و نصرت کی ضرورت پڑ گئی۔ حقی بات یہ ہے کہ واقعتاًبہت سے ہئیتی، اسلوبی، لسانی اور شکلی تغیرات و تبدلات ہیں جن نے جدید سخن کی تفہیمی راہ میں عام قاری کے لیے روڑے اٹکائے۔

یہ تو ہوئی مغربی شعر و نقد کی بات۔
اب اردو کی سنیے۔ اردو کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ اس کے فروغ کار، کہ جو ہر زمَن میں معدودے چندہی رہے ہیں، سوچتے زیادہ، کام کم کرتے ہیں۔ اور جنھیں کام کرنے کی توفیق ملتی ہے اور وہ کرجاتے ہیں، تو وہ جو کچھ نہ کر پائے تھے، کام کر جانے والوں پر طعن ولعن کرتے ہیں، اورایسا کرکر تھکتے بھی نہیں۔ اِن کَرُوؤں پر، غیرکرُوؤں کی طرف سے عموماً ایسے الزامات دھرے جاتے ہیں: اِن نے اپنا کچھ پیش نہیں کیا؛ یہ سب مغرب سے مستعار ہے؛ یہ تو سرقہ بازی ہوئی نا! یہ تھیوری تو فرانس میں پیدا ہوئی۔ تو اِس کا اطلاق اُردو پر کیونکر کرو ہو۔ یہ شے وہاں سے آئی، یہ وہاں سے، وغیرہ، وغیرہ۔ حقی بات تویہ ہے کہ ادبی تھیوریاں مغرب کے باپ دادا کی جاگیر نہیں ہیں۔ ہر تھیوری کسی نہ کسی علم، مذہب، کلچر، قصے، یا اسطورہ میں اپنی خام یا کرُوڈ حالت میں کہیں نا کہیں پڑی ہوئی ہوتی ہے، اب جس نے اسے دریافت کیا، تھیوری اس کے نام۔ بیسویں صدی میں ظہور پذیر ہونے والی تھیوریاں کیا ’اچانک‘ کے باطن سے نکلی ہیں؟ بالکل نہیں۔ اک ادب کیا، کسی بھی شاخِ علم میں ’اچانک ’ کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا، نا ہو سکتا ہے۔ خیال کی طرح، ہر تھیوری سفر کرتی ہے؛ طویل سفر۔ گرتی پڑتی، گرد میں اَٹتی، بھوک پیاس جھیلتی ہے، اور پھر کسی خوش بخت عالِم کے گہرے مشاہدہ و مطالعہ کے انعام کی صورت اس کے آغوش میں آگرتی ہے۔ یوں اس تھیوری کی تشکیل میں ان زمانوں کے علاوہ ’اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام‘۔ اور آخر میں، دریافت شدہ تھیوری جب عوامِ ادب تک پہنچتی ہے تو ہر کس جو چاہے، اس سے استفادہ کرسکے ہے۔ بلا روک، بلا ٹوک۔ کسی بھی زبان میں، کسی بھی انداز سے۔
اور استفادہ سرقہ ہے نا نقالی؛یہ عالَم کاری کا تحفہ ہے!

اور اس تحفے کی خوش بختی ہے کہ وہ اس زمَن کے معتبر مصنف و مسلم الثبوت محقق ناصر عباس نیر کی گود میں آ ٹھیرا ہے۔ جناب نیر کی وسیع العلمی ان کی تصانیف میں بولتی ہے، اور خوب بولتی ہے۔ مغربی و مشرقی ادب کی سمجھ بوجھ پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ انھوں نے اردو کے کلاسیکی و جدید ادب کو مغربی تھیوری کے فریموں میں بٹھا کر، انھیں نئی طرز، نئے زاویے اور نئے ڈھنگ سے ری وِزِٹ کرنے جیسا بڑا کام اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اب تک وہ اس نوع کا اطمینان بخش کام کرچکے۔ اسی سلسلے کی تازہ ترین کتاب ‘نظم کیسے پڑھیں‘ ہے جو جناب نیر نے بڑی جاں فشانی سے تخلیق کی ہے۔ یہاں ’ تخلیق‘ کا لفظ میں نے نیتاً لکھا ہے۔ اس کا عقدہ مضمون کی پڑھت کے بعد خود ہی کھل جاوے گا۔

یہ کتاب، اردو زبان میں اپنی نوعیت کی پہلی تنقیدی کتا ب ہے۔ تنقید، نظمِ جدید پر، اس کے تاریخی، ثقافتی، مذہبی، اسطوراتی، سماجی، روایتی، نو آبادیاتی اور شعریاتی پس منظروں میں کی گئی ہے۔ ہر مضمون بہ ظاہر الگ، منفرد، مخصوص چنیدہ موضوع پر بحث کرتا ہے، مگر بباطن تمام مضامین کسی نہ کسی طرح باہمی تعلقِ خاص رکھے ہوے ہیں۔ تنقیدی انداز نیا نکور، جب کہ زاویہء نگہ کثیر السمتی ہے۔ نئی نظم میں نو آبادیاتی سمتوں کی نشان زدگی، ان کے اثرات، ان کی قوتوں کا بیان، ان کی انفرادی پیش کش، اور مذکورہ سمتوں کی گوں ناگونی۔ بہت کچھ اَور بھی، ان مضامین کی داخلی و خارجی صورتوں میں وجود رکھتا ہے۔

مضمونِ اول، انیسویں صدی کے تقریباً وسط میں انگریزی نظموں کے تراجم کے آغازی عہد کو چھوتا، انجمن پنجاب کی جدید اردو نظم میں contribution کے رنگ بکھراتا، ماضی و روایت کی بازیافت کا قصہ سناتے سناتے، پڑھیار کو اقبال کی ’ مسجدِ قرطبہ‘، مجید امجد کے ‘مقبرہ جہانگیر‘ اور میرا جی کے ‘اجنتا کے غار‘ کی سیریں کرا دیتا ہے۔ اور اس دوران میں کیسی کیسی تنقیدی گتھیاں سلجہادیتا ہے۔

مضمون، کہ جو اِس کے بعد والا ہے، صاحبِ مطالعہ کو بتاتا ہے کہ کہ جدید نظم کے معنوی درکیونکر کھولے جا سکتے ہیں۔ نئے ادب کی پڑھت، اس کی تفہیم اور اس کی چھپی پڑی طاقتوں کو کھوجنا، بشکلِ خود ایک فن ہے، فن کاری ہے۔ نئی نظم نئی طرح کی شاعری ہے، نیا ڈسکورس ہے، نیا فوکس ہے، جو فرد کی ذات پر ہے۔ “یہ پیراڈاکسوں سے بھری پڑی ہے“ یہ ڈسپلیسمنٹ کا ماتم ہے۔ یہ کلاسیکی ادب کے دیوتا کو ”میں“ بناتی ہے۔ یہ اندرونی و بیرونی حالتوں کی کرشمہ سازہے۔ نئی تیکنیکوں، نئی ہییتوں، نئی ڈکشنوں میں ظہور کرنے کی رسیا ہے۔

ا س حصہ میں پڑھیار کو افتخار جالب، سعادت سعید، افضال احمد سیدکی ایک ایک منتخب نظم سے بھی لطف دلایا جاتا ہے۔ یہاں ستیہ پال آنند، سعادت سعید، علی محمد فرشی، کشور ناہید، رفیق سندیلوی، ساقی فاروقی وغیرہم کا بھی ذکر مذکور، منظور ہوتا ہے۔ اردو نظم میں سسی فس کے لاشعوری طور پر لائے گئے استعارے کے بیان میں کئی ایک مزید عمدہ نظمیہ قطعوں کا ایک ننھا ڈھیر بھی کھپایا جاتا ہے۔ پڑھیار کی دل چسپی اس دم دوگونہ ہوجاتی ہے جب وہ نظم کے بیان میں دی گئی مثالوں میں فکشن کی مثالوں کو پڑھتا ہے؛ اور فکشن بھی دنیائے ادب کے چمکتے ستارے، جرمن پیارے ہرمن ہیسے کے دل گداز ناول steppenwolf کا، جس کی نثر بھی شعر سمان ہے۔

مضمونِ سُوُم میں، ڈاکٹر مصنف کتا ب کے سرورَقی نکتہ کی جانب بڑی چھلانگ بھرتاہے۔ “ جدید نظم کو پڑھنا مشکل کیوں ہے؟ “ ادھر تمھارا واسطہ ”معنوی دنیا کی“ دو صورتوں ” رواجی اور استعاراتی“ سے پڑتا ہے۔ یاسمین حمید کی نظم سے دروازہ کھلتاہے۔ حلقہ اربابِ ذوق کی اچھی بری تنقید کا سُچا اظہار، نظمِ جدید پر تبصرے کی بابت اٹھتا ہے۔ ڈاکٹر مصنف اپنا ذاتی تجربہ و مشاہدہ بیان کرکر تفصیلاً بتاتا ہے کہ جدید نظم کی مشکلات کیا ہیں۔ اپنی شان میں اچنبھا، یہ ناقد، بطرزِ دیگراں، مشکلات کو محض ہائی لائٹ ہی نئیں کرتا، ان کا حل بھی مفصل پیش کرتا ہے۔ وہ بھی پورے اعتماد کے ساتھ۔ حق یہ ہے کہ ہمارے ملکِ عظیم میں پر اعتما ناقد نایاب ہے۔ نظم کو پڑھنے، سمجھنے کا جو فارمولایہ سُچا ناقد پیش کرتا ہے، اُس کا اطلاق جدید ادب کی دیگر اصناف پر بھی، ذرا سمجھ داری سے کام لے کر، کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، ایم فل اور پی ایچ ڈیاں کرنے والے مُنّے اور مُنّیاں ایسا کرنے میں ذیادہ احتیاط برتیں، کہ یہ ادبی فارمولا ہے، ریاضیاتی نہیں۔

تو صاحب، ناقد کہتا ہے کہ نظمِ جدید کی سمجھ میں اس کی ہئیتی سطح، موضوعی سطح، اسلوبی سطح کی الگ الگ تفہیم کرکر ہی اس کے معانی کے جندروں کو کھولا جاسکتا ہے۔ فہمیدہ ریاض، تبسم کاشمیری، منیر نیازی وغیرہم کی نظمیں سامنے رکھی جاتی ہیں، ان پر تفہیمی تبصرہ جمایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ، مجید امجد، اور نصیر احمد ناصر کی نظموں کو بھی لاسجایا جاتا ہے۔ یہاں اندازِ نقد، دل ربا، منطقی، مدلل، کومپیکٹ، کسا ہوا، قایل کُن، اور پُر لطف ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اسے ہضمانا تو دور، پڑھا بھی نا جاسکتا۔

مضمونِ چہارم، نظم میں خالی جگہوں، وقفوں، خاموشیوں کی ٹریسز، اہمیت، صورت، ضرورت پر بحث کرتا ہے۔ یہ میرا پسندیدہ تر مضمون ہے کہ اس موضوع پر اردو میں اس طور سے کام عنقا ہے۔ جناب نیّر، اس مضمون کا آغاز میرا جی کی نظم کے شور، اور انجام وزیر آغا کی ’خموشی ’ کے ذکر اذکار سے نہ کرتے تو بتاؤ اور کیسے کرتے۔ پڑھنے والا جب اس میں ڈوبتا ہے تو اسے یہ کچھ نصیب ہوتا ہے:‘ کلاسیکی نظم زبان کے اُفُقی رشتوں۔ جب کہ جدید نظم عمودی رشتوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ ‘ (دونوں قسموں کی نظموں کے تقابلی جائزے پیش کیے جاتے ہیں۔ ) ”پرانی نظم کی حسییت عقلی، نئی نظم کی نفسی و لاشعوری ہے۔ ”بھئی واہ واہ مصنف بھائی! مجید امجد، یہاں بھی صفحہ صفحہ نظر آتا ہے۔ پرانے اور نئے احساسِ شعری کا فرق واضح ہوتا ہے۔ نیا استعارہ نئی نظم کے پیٹ میں سے نکلتا ہے۔

مضمونِ پنجم:نئی نظم کی ہئیت و موضوع کی بابت ہے۔ نظم کیسے پڑھیں کا جواب یہاں بھی مختلف زاویوں سے دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں اندازِ نقد استادانہ ہو گیا ہے۔ یہ موضوع کی مجبور ی دکھتی ہے یا جناب نیر واقعتاً ذہن میں طلبا ء و قارئین کی اس کھیپ کو مد نظر رکھتے ہوے لکھ رہے ہیں، جنھیں اس تشریحی انداز ہی سے سمجھ آنی ہے۔ صفحہ صفحہ کوئی نہ کوئی نظم رکھی جاتی ہے، وضاحت کی جاتی ہے، نظم رکھی جاتی ہے، وضاحت کی جاتی ہے۔ ایک بات اس مضمون کی عمدہ و پر لطف ہے، وہ موضوع و ہئیت کی ہم آمیزی کے نتیجے میں میسر آنے والی اس انوکھی موسیقی کی نشان زدگی ہے، جو نظم کی عمومی موسیقیت سے منفرد بتائی گئی ہے۔ اور با لکل درست بتائی گئی ہے۔ اس مضمون کے آخر میں ٹیری ایگلٹن کانام ’ حوالہ جات‘ میں تنہا کھڑا دکھائی دیتا، اچھا لگتا ہے۔

مضمون ششم، اختر الایمان کی نظم میں جلا وطنی کے موضوع کو عمدہ مثالوں، عمدہ تر خوبیء بیان سے صفحوں پر چمکاتا ہے۔ مضمون کے اختتام پر اختر الایمان کی ایک مختصر نظم، ’خلا‘ اور اس پر خوب صورت تبصرہ، مضمون کو بہت عمدگی سے نتیجہ خیز بنا کر بند کر دیتا ہے۔
مضمونِ ہفتم اچھے انداز سے شروع ہوکر اچھے انداز ہی سے ختم ہوتا ہے۔

ہاں، یہ مضمونِ ہشتم ہے جو پاکستان کی عصر ی نظم میں روایت کی بازیافت اور نئی نوآبادیات کی تلاش، اس کے نین نقشے، اس کے رنگ ڈھنگ، اس کی مثالیں، اس کی رمزیں اور علامتیں پیش کرتا، ان کی تفہیم کراتا، ان پر تنقیدی نظر ڈالتا اور تازہ ترین نظمیہ شاعری میں نئی نو آبادیات کے جا بہ جا ظہور پر سیر حاصل بحث کرتا ہے۔ اس مضمون کا آغا ز بہت بہت دلچسپ اور فکر انگیز ہے۔ یہ دیکھیے، یوں ہے آغاز:

ہمیں کچھ لفظوں کو بالکل بھول جانا چاہیے
مثلاً
بنی نوع انسان
یہ تین سطریں افضال احمد سید کی نثری نظم، ’ہمیں بھول جانا چاہیے‘ کی آ خری سطریں ہیں اور معاصر اردو نظم کے مابعد نو آبادیاتی مطالعے کی تمہید!

اس خوب صورت آغا ز کے بعد نئی نوآبادیات، روایت، جدید یت اور نئی نظم کی تعریفیں، مختصر تفصیلیں، ان کی پرداخت اور نشو نما میں معاشی و سماجی عوامل کی کار فرمائی اور وہ ہر بات جو اس ضمن میں ہونا لازم ٹھیر سکتی تھی، کی گئی ہے۔ اس مضمون میں ایک بات کو بہت عمومی طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ معاصر اردو نظم میں قرآنی تلمیحات (یہ phrase میرا ہے)مثلاً ’سلیماں، موسٰی، عیسٰی، یوسف، زلیخا، ابرہہ، اور ہاتھی، ہابیل، قابیل، آدم وحوا‘ کثرت سے استعمال ہوئی ہیں۔ چند شعرا نے اپنی دو ایک نظموں میں اگر دیکھا دیکھی ایسا کیا ہے تو بھئی اس نکتہ کوgeneralizeتو نہیں کیا جا سکتا نا! چند مثالیں جو اس حوالے سے دی گئی ہیں وہ زیادہ متاثر کن نہیں ہیں۔ راشد کی نظم میں ان تلمیحوں کا استعمال اور اس کی مثالیں البتہ قابل ہضم ہیں۔ باقی اللہ کی مرضی سے سب ٹھیک ہے!

کتاب کا اخیرلا مضمون، کتاب کا اچھا اختتمامیہ ہے :جدید شاعری کے باذوق قاریوں، نئے لکھاریوں، اور طلباؤ طالباتِ ادب کو اسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں جدید و مابعد جدید نظم پر ہلکی پھلکی بحث ہے۔ مثالیں دل چسپ وسہل ہیں، سادہ الگ۔ تدریسی و تشریحی رنگ غالب سا ہے۔ ایک منجھا ہوا، پر اعتماد نقاد، اب اپنی کتاب کی بات کو سمیٹ سمیٹ دینے کا خواہش مند ہوا چاہتا ہے۔ بہت کچھ کہَ جو دیا گیا ہے۔ کتاب ختم ہوتی ہے، اور نئی نظم کی تفہیم شروع!

کتاب دوستو! یہ کتاب علمی و تنقیدی چسکے کو بڑھاتی ہے۔ appetizing aroma سارے میں پھیلاتی ہے۔ اسے پڑھ کر کہیں کہیں آپ سی سی کرو گے، مگر فوکس کی تبدیلی کا پانی نہ مانگو گے، کہیں کہیں واہ کرو گے۔ کہیں آہ۔ اکثر صفحوں کی پڑھت کے ہنگام سبحان اللہ، اللہ اللہ کہتے جاؤ گے۔ مصنف کو داد دیتے جاؤ گے، دعا بھی۔ اور اس کے اعتماد پر رشک کرو گے، حسد بھی۔
باقی جانیں مولوی آزاد، آبِ حیات والے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).