گلگت بلتستان کی ڈوبتی سانسوں کو سہارا دو


یہ مت دیکھو کہ ترقی کتنی ہوگی۔ یہ دیکھو کہ تمھاری عزت کتنی محفوظ رہے گی۔ کہتے ہیں کہ سی پیک سے ترقی کا ایک نیا باب شروع ہوگا۔ جو لوگ سوچ رہے ہیں ’چین کی ترقی‘ تو وہ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو یہ سوچ رہے ہیں کہ ’پاکستان کی ترقی‘ تو یقین جانیے، وہ بھی ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ لیکن اس راہ داری کے درمیان ایک خطہ ایسا بھی ہے جو اپنا بیس فی صد حصہ اس منصوبے کی نذر کر رہا ہے۔ اس کی ترقی کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ اس خطے میں کٹھ پتلی ہی سہی ایک اسمبلی ہے۔ جہاں وزرا ہیں، چاہے نام کے سہی۔ جن کو یہاں کے عوام ووٹ دیتے ہیں، چاہے وہ ووٹ کسی آئین اور قانون کی زیرنگرانی نہ سہی۔ پھر بھی یہاں ایک قوم تو بستی ہے جو دنیا کے نقشے میں کئی دہائیوں سے سرخ رنگ کا نشان لیے کھڑی ہے۔ یہ لوگ دنیا کے کسی بھی ملک کے آئینی شہری نہین ہیں لیکن یہ لوگ سمجھ تو رکھتے ہیں۔ آواز اُٹھاتے ہیں، زندہ ہیں اور زندگی کی کش مکش میں تو ہیں۔

سی پیک کے آنے کے بعد اس خطے کے ساتھ کیا ہوگا؟ کسی کو بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے۔ یہاں پر بسنے والے لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس وقت جو اسمبلی اور اور ممبر ہیں، ان کو پنجاب کے ایک 22 گریڈ کا آفیسر اپنی پنسل کی نوک پہ رکھتا ہے۔ جب چاہے لکھتا ہے اور جب چاہے اس کو مٹاتا ہے۔ ایسے میں چائنا پاکستان کے ساتھ ایک مضبوط رشتے کی ڈور سے بندھا اس خطے میں وارد ہو گا۔ تو پھر کیا ہو گا؟ دنیا میں چائنا اپنے قانون ہی چلاتا ہے چاہے وہ ان کی کمپنی ہو یا سرکار۔ ان کے اپنے کام سے مطلب ہوتا ہے۔ ان کے سامنے کسی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ایسے میں ایک ایسی قوم جو اپنے تشخص کے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے زندہ رہ پائے گی۔ کیا ایسے میں پاکستان جیسا ملک جو اس خطے میں اپنا اثر رکھتا ہے۔ جو انتظامی طور پر اس خطے پر حکومت کر رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی تشخص کے لیے اقدامات کرسکے گا۔ تو میری طرح آپ کو بھی جواب ’’نہ‘‘ ہی میں ملے گا۔

پاکستان کے اپنے مسائل ہیں۔ اپنے قرضے ہیں۔ اپنی ڈوبتی معشیت ہے۔ اپنے عوام کے روہے ہیں۔ اپنی شدت پسندی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی نظر میں گلگت بلتستان کی چھوٹی سی آبادی کی کوئی حیثیت نہیں۔ تشویش میں ڈوبی گلگت بلتستانی قوم کے مسائل پاکستان کے سیاست دانوں کے سامنے کبھی اہمیت کے حامل نہیں رہے۔ نا اُس وقت جب مودی نے ہندوستان کی آزادی کے دن گلگت بلتستان کا نام لیا اور نا ہی آج جب سی پیک کا بیس فی صد حصہ گلگت بلتستان کی سرحدوں سے گزرتا ہے۔ پاک چین کی اس راہ داری میں نا ہی گلگت بلتستان کا نام شامل ہے اور نا ہی شامل کرنے کا سوچا گیا ہے۔ اس پاک چین راہ داری میں گلگت بلتستان ایسے ہی غائب ہے، جیسے دیامیر بھاشا ڈیم میں غائب تھا۔ نا ہی دیامیر بھاشا ڈیم کی تقسیم و تشکیل میں گلگت بلتستان کی شنوائی ہوئی اور نا ہی پاک چین راہ داری میں گلگت بلتستان کا ذکر کیا گیا۔ دونوں منصوبوں میں گلگت بلتستان کو دیوار سے لگایا گیا۔

جب بھی گلگت بلتستان کا کوئی کیس پاکستان کے ایوانوں میں جاتا ہے تو اس کیس کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان تو ایک متنازِع خطہ ہے۔ اس کا فیصلہ تو ابھی ہونا باقی ہے۔ یہ متنازِع والے الفاظ سن سن کر گلگت بلتستان کے عوام ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ کوئی کچھ نہیں سنتا۔ کوئی کچھ نہیں بولتا۔ کوئی کچھ نہیں سمجھتا کہ گلگت بلتستان کے لوگ کیا چاہتے ہیں اور ان کی مرضی کیا ہے۔ کوئی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کالر میں ایک مائک لگا کے کہتا ہے گلگت بلتستان کے وہ لوگ جو ایشائی ملکوں میں کام کرتے ہیں، وہ دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔ یا پھر وہ خود ایسی کارروائیاں کر سکتے ہیں، تو کوئی اپنے ایئر کنڈیشن کمرے میں بیٹھ کر اپنی مرضی کا قلم چلا کے گلگت بلتستان کے لوگوں کا فیصلہ کرتا ہے۔ پاکستان کے سرکاری ملازم گلگت بلتستان کے لوگوں کو یہ کہہ کر احسان جتانے کی کوشش کرتے ہیں، کہ آخر تم لوگوں نے پاکستان کو دیا کیا ہے۔ جو حقوق مانگنے کی جسارت کرتے ہو۔

ایسی صورت احوال میں جب اپنے ملک ہی کے سیاست دان اور بیوروکیریٹس گلگت بلتستان کے عوام کی سانسیں روکنے کی پاداش میں ہوں، چائنا سے آنے والی مخلوق کیوں کر گلگت بلتستان کے لوگوں پہ رحم کرے گی۔ کیوں کر وہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کے جائز حقوق دینے میں پہل کریں گے۔ جب ان کا پورا کھاتا پاکستان کے ساتھ کھلنے والا ہو اور گلگت بلتستان کی زمین تو انھیں مفت میں مل جائے۔ آئین سے محروم قوم جو اپنے ہی ملک کے اندر اپنے لیے آئینی تحفظ کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہو، چین کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ کیسے لڑ سکتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کی بسی کچی زندگی زندہ درگور ہونے سے پہلے ان کے جائز مطالبات مانے جائیں، اور ان کو ایک ایسا مقام دیا جائے جہاں وہ سر اُٹھا کے اپنی زندگی گزار سکیں۔ تا کہ دوسرے ملکوں سے آنے والوں کے ساتھ منصفانہ تجارت کی بنیاد رکھ سکے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کی ڈوبتی سانسوں کو سہارا دیا جائے اور ان کے لیے عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کی راہ ہموار کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).