بھٹائی کی سورمیوں جیسی کلثوم نواز


لاہور کا وہ صحافی جو مسلم لیگ نون پہ تنقید کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتا، لیکن کلثوم نواز کی وفات کی خبر آنے کے بعد سوشل میڈیا پہ اس نے ایک نظم لکھ کر مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ اس نے لکھا:
اے بھٹائی کہاں ہو تم؟
واپس آو
دیکھو! تمھاری دھرتی نے کتنی اور سورمیوں کو جنم دیا ہے
دیکھو! تمھاری دھرتی بنجر نہیں ہوئی
ہاں! دماغ ضرور بنجر ہو گئے ہیں
یا کر دیے گئے ہیں
آو اب ان سورمیوں پر بھی کوئی سر گاو
تنبورے کی تار کو چھیڑو
کوئی دکھ بھرا الاپ اٹھاو
دیکھو! آج ہی موت نے ایک اور سورمی کو جنم دیا ہے

کلثوم نواز تین بار خاتون اول رہی ہیں۔ تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کی اہلیہ، لیکن کلثوم نواز کو سورمیوں کی صف میں ان کا وہ کردار لا کھڑا کرتا ہے، جو ہر کسی کے حصے می‍ں نہیں آتا۔ شاعروں کے سرتاج شاہ عبد الطیف بھٹائی نے اپنی شاعری می‍‍‍ں وطن اور وطن کے لوگوں ہی سے بے انتہا محبت کرنی والی خاتون ماروی پہ شاعری کا ایک پورا سر لکھا۔ اپنے پیار کی تلاش می‍ں صحرا صحرا بھٹکنے والی سسی پہ بھی شاعری کی۔

اپنے حسن کے زور سے وقت کہ بادشاہ کو اپنی محبت میں گرفتار کرنے والی مچھیرن نوری بھی شاہ کی شاعری میں اعلی مقام رکھتی ہے۔ اپنے منہیوال سے ملنے کے لیے دریا کی تیز لہروں سے جنگ کرتے، گھڑے پہ تیرتی محبوب تک پہنچنے والی سوہنی کی محبت کو بھی بھٹائی نے دلائل سے ایک جائز محبت قرار دیا ہے۔ بھٹائی کی ان عورتوں کو اپنی سورمی بتاتا ہے، جن عورتوں نے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کی اور قربانی دی۔ اگر شاہ لطیف اس دور میں ہوتے تو ان کے شاعری میں بے نظیر بھٹو کے بعد یقینا کلثوم نواز بھی سورمی ہی ہوتیں۔

چہرے پہ انتہا درجے کی معصومیت اور شفقت سجائے رکھنے والی سابق خاتون اول نے کسی ایک موقع پر بھی یہ احساس نہ ہونے دیا، کہ وہ حکمران اور با اثر خاندان سے ہیں۔ کوئی غرور کوئی تکبر ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا۔ وہ سورمی ہی تو تھی۔ اس وقت جب ان کے شوہر سمیت خاندان کے تمام لوگوں کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا، وہ شوہر جسے اپنے قریبی ساتھی بھی آمریت کے ڈر سے چھوڑ گئے، اس کی رہائی کے لیے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے وہ میدان عمل میں نکلیں، اور انھوں نے خود کو ایک انقلابی کارکن ثابت کیا۔

وہ خاتون جس کو جب کینسر کے مرض نے اپنی لپیٹ میں لیا تو ریاست کو ماں کی حیثیت میں دیکھنے کے خواہش مند سیاستدانوں نے اس ماں کی بیماری کو بھی مشکوک قرار دیا۔ وہ جب بیماری کے بستر پہ موت سے جنگ لڑ رہی تھیں، جسے اس وقت اپنے پیاروں کی شدت سے ضرورت تھی تو اس کے جیون ساتھی اور بیٹی کو جیل جانا پڑ گیا اور وہ اپنے پیاروں سے ملنے کہ حسرت کے ساتھ یہ جہان چھوڑ گئیں۔ وہ شاہ لطیف کی سورمیوں جیسے کردار کی مالک خاتون اس دنیا میں نہیں رہیں۔ ان کی جدائی کے غم کو ملک اور سرحدوں کے بابر شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).